ٹوکیو: مارچ 2011 کی فوکوشیما آفت کے بعد جاپان کو اس گرما میں ایک مرتبہ پھر مکمل ایٹمی بندش کا سامنا ہو سکتا ہے جیسا کہ ملک کے دو فعال ایٹمی ری ایکٹر دیکھ بھال کے لیے بند ہو جائیں گے اور نئی سخت سیفٹی شرائط ری ایکٹروں کے بقیہ ماندہ سلسلے کو بند رکھے ہوئے ہیں۔
اس سے جاپان کو بجلی کی پیداوار کے لیے مزید رکازی ایندھن درآمد کرنا پڑ سکتے ہیں، جس سے ملک کے توانائی کے وزنی بل میں مزید اضافہ ہو جائے گا، جس نے ملک کو 2012 کے ریکارڈ تجارتی خسارے تک دھکیلنے میں معاونت بھی کی۔
میڈیا رائے شماریوں نے ظاہر کیا ہے کہ جاپانیوں کی اکثریت قبل نہیں تو 2030 تک ایٹمی توانائی سے چھٹکارا چاہتی ہے، جس سے محفوظ سمجھے جانے والے ری ایکٹروں کو دوبارہ چلانے کا فیصلہ بھی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی نئی حکومت کے لیے رسک بن گیا ہے۔
ربع صد ی میں ہونے والے دنیا کے بدترین ایٹمی حادثے، فوکوشیما کی آفت نے رفتہ رفتہ جاپان کے تمام ایٹمی ری ایکٹر بند کرنے پر مجبور کر دیا تھا، جس سے بالآخر مئی 2012 میں ملک 1970 کے بعد پہلی مرتبہ ایٹمی توانائی سے بالکل محروم ہو گیا۔