ٹوکیو: لگتا ہے جاپانی وزیر اعظم شینزو ایبے کے زیادہ اخراجات کے ذریعے معیشت کو دھکا لگانے اور مہنگائی پیدا کرنے کے منصوبے کسی نہ کسی شکل میں پھل لا رہے ہیں۔ جیسا کہ جمعہ کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاپانی صارفین آخر کار اپنے بٹوے ڈھیلے کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ (جس سے پیسے کی گردش بڑھے گی، پیداوار بڑھے گی، نوکریاں بڑھیں گی اور معیشت سے جمود کی کیفیت زائل ہو گی۔)
وزارتِ امورِ داخلہ نے کہا کہ گھرانوں نے پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 2.4 فیصد زیادہ خرچہ کیا، جو معاشیات دانوں کی جانب سے تخمینہ شدہ 0.4 فیصد کی اوسط اقتصادی بڑھوتری سے کہیں زیادہ ہے۔
اعداد و شمار سے پتا چلا کہ ایک دیہاڑی دار کے گھرانے کا خرچ ہی 4.1 فیصد کے حساب سے بڑھ گیا۔
تاہم اخراجات بڑھنے کے باوجود قیمتوں کی گراوٹ جاری رہی (یعنی چیزیں سستی ہوتی رہیں) –جو جنوری میں 0.2 فیصد نیچے آ گئیں– جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایبے کے کرنے کو ابھی بہت سا کام پڑا ہے۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے اخراجات بڑھانے اور مرکزی بینک کی جانب سے بانڈز کی خریداری پر زور، جسے (معاشیات کے انگریزی نام اکنامکس کی طرز پر) ‘ایبے نامکس’ کا نام دیا گیا ہے، نے پہلے ہی ین کی قیمت نومبر کے مقابلے میں 15 فیصد کم کر دی ہے اور اسی دورانیے میں بازارِ حصص میں قیمتیں 20 فیصد بڑھا دی ہیں۔ (ین کی قیمت کم ہونے کا مطلب ہے ایک ڈالر کے مقابلے میں زیادہ ین دینے پڑتے ہیں، کچھ یہی صورتحال پاکستانی روپے کے ساتھ ہے جو ڈالر کے مقابلے میں سستا ہو رہا ہے یعنی ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک ڈالر کی خریداری کے لیے زیادہ روپے دینے پڑ رہے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ جاپان کو ین سستا ہونے کا فائدہ ہے چونکہ باہر سے ڈالر آنے پر زیادہ ین ملتے ہیں، پاکستان کو ترسیلِ زر والے کچھ ڈالروں کے علاوہ اس کا نقصان ہی نقصان ہے چونکہ اس کے پاس جاپان کی طرح پیداوار ہے کوئی نہیں اور حکمران بس نوٹ چھاپ چھاپ کر کرنسی کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔)