ٹوکیو: مرکزی بینک کی پالیسی سازی کے نٹ پیچ کسنے کے لیے جاپانی حکومت کے نامزد کردہ اشخاص میں سے ایک نے منگل کو کہا کہ غیر ملکی بانڈز کی خریداری –جو تفریطِ زر کو مار بھگانے کی سب سے انتہا پسندانہ ترکیبوں میں سے ایک ہے– صرف ایسی صورت میں پالیسی انتخاب ہو گا جب دوسرے اقدامات ناکام ہو گئے۔
کیکوؤ ایواتا، جنہیں حکومت نے مرکزی بینک کے دو نائب گورنر کے عہدوں میں سے ایک کے لیے نامزد کیا ہے، نے کہا کہ بینک آف جاپان کے لیے پہلا انتخاب یہ ہونا چاہیے کہ وہ جاپانی حکومت کے پرانے قرضے کو خرید کر طویل مدتی شرح سود کو کم کرنے کی کوشش کرے۔ (حکومت کا قرضہ خریدنے کا مطلب ہے کہ بینک مزید نوٹ چھاپے گا، اور زیادہ عرصے کے لیے شرح سود میں کمی کی کوشش بھی کرے گا جس سے پیسے کی گردش میں اضافہ ہو گا، یعنی مہنگائی بڑھے گی۔)
70 سالہ ایواتا، جو زی پالیسی اور مہنگائی کو ہدف بنانے کے حوالے سے اپنے کام کے لیے مشہور مدرس ہیں، نے کہا، “بطور مرکزی بینک میں سمجھتا ہوں کہ کچھ پالیسیوں کو شروع سے ہی نکال باہر کرنا کوئی اچھا خیال نہیں ہے”۔
انہوں دائت کے ایوانِ زیریں میں ایک تصدیقی سماعت کے موقع پر کہا، “اگر ہم مہنگائی کے ہدف کو پورا نہیں کر سکتے، تو میں چاہوں گا کہ غیر ملکی بانڈز کی خریداری بطور ایک انتخاب موجود رہے”۔ (بانڈز کی خریداری کا مطلب بھی یہ ہو گا کہ بینک کے پاس مزید نوٹ چھاپنے کے لیے زرِ ضمانت کے طور پر غیر ملکی بانڈز موجود ہوں گے۔ چونکہ نوٹ چھاپنے کے بھی کچھ قاعدے قوانین ہیں، جن میں اولین یہ ہے کہ جتنے کے نوٹ چھاپے جائیں اتنے کا سونا بطور ضمانت مرکزی بینک یا حکومت کے پاس محفوظ ہو، اگر سونا نہیں تو غیر ملکی زرِ مبادلہ محفوظ ہو، اور غیر ملکی بانڈز اسی مد میں آتے ہیں۔ لیکن اس کا آخر میں نتیجہ وہی نکلے گا یعنی حکومتی قرضے میں اضافہ، یوشیکو نودا اسی بات کو پٹتا ہوا اپنا سیاسی کیرئیر تباہ کر بیٹھا کہ جاپان کا حکومتی قرضہ کم کیا جائے۔ پاکستان کو دیکھیں تو اس کا قرضہ بھی حدیں پار کر رہا ہے اور اس کا تو جاپان سے بھی برا حال ہے اور ابھی مزید ہو گا۔)
بینک آف جاپان کے دوسرے نائب گورنر کے عہدے کے لیے دوسرے نامزد حکومتی امیدوار ہیروشی ناکاسو نے منگل کو کہا کہ وہ پچھلی مثالوں کی پیروی کیے بغیر زری پالیسی کو گائیڈ کریں گے۔