سونامی کے 2 برس بعد بھی تعمیرِ نو کی رفتار سست

کیسے نّوما: واپس جاتے ہوئے سونامی نے پیچھے ملبے کے جو ڈھیر چھوڑے تھے وہ زیادہ تر غائب ہو چکے ہیں، تاہم قدرتی آفت کے دو برس بعد جاپان کے لُٹے پُٹے شمال مشرقی علاقے کے کچھ حصے اب بھی برباد شدہ بنجر علاقے دکھائی پڑتے ہیں۔

جہاں کبھی ملبے کے ٹکڑوں کے پہاڑ موجود تھے، وہاں اب بھی لکڑی کے گھروں اور اجڑی ہوئی زندگیوں کے ٹکڑے پڑے نظر آ جاتے ہیں، کہیں کہیں نئی عمارتیں بھی چھپ چھپا کر اگ آئی ہیں اور کچھ گھروں کی مرمت بھی ہو چکی ہے۔

مدھم مدھم سے نشان نئی تعمیر شدہ سڑکوں پر کاروں –جن میں سے اکثر نئی ہیں– میں لوگوں کو ان دیہوں اور قصبوں میں لے جاتے ہیں جو مشکلات سہہ کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے ہیں۔

کچھ علاقوں میں، جو اکثر اونچی جگہ پر واقع ہیں، مقامی آبادیاں دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئی ہیں اور ایک ایسی آفت سے سنبھلی ہیں جس نے 19,000 کے قریب لوگوں کو ہلاک کیا اور ایک نسل میں دنیا کے بدترین ایٹمی حادثے کو جنم دیا۔

تاہم دوسری آبادیاں ابھی تک مفلوج پڑی ہیں، اور فیصلہ نہیں کر پا رہیں کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.