فوکوشیما کے 2 برس بعد جاپان کی ایٹمی لابی پھر سے طاقتور

ٹوکیو: پچھلے برس جاپان کے “ناراضگی بھرے گرما” کے بعد سے ایٹمی توانائی مخالف مظاہرین کے ہجوم سکڑ گئے ہیں، اور نئی حکومت ملک کی ایٹمی توانائی کی بحالی کی آرزو مند ہے، تاہم میروسیشی ایزومیتا کہتے ہیں کہ وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔

“ہمیں یہاں احتجاج کے لیے موجود رہنے کی ضرورت ہے۔ اس اہم چیز کو ترک نہ کرنے کی ضرورت ہے،” انہوں نے مزید کہا، جیسا کہ ایکٹوسٹ (وزیرِ اعظم کے دفتر کے سامنے مظاہرے میں) ڈرم بجا رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے “ایٹمی توانائی بند کرو، ہمارے بچوں کو تحفظ دو”۔

اگرچہ حال ہی میں ایک سروے نے واضح کیا ہے کہ 70 فیصد جاپانی ایٹمی توانائی کو بالآخر ختم کر دینا چاہتے ہیں، تاہم اتنے فیصد تعداد ہی اپنے نئے، ایٹمی توانائی نواز وزیرِ اعظم شینزو ایبے کی حمایت کرتی ہے، جو چاہتے ہیں کہ اگر آفلائن ری ایکٹر نئے حفاظتی معیارات پر پورے اتریں تو انہیں ری اسٹارٹ کر دیا جائے جیسا کہ وہ عرصہ دراز سے جمود کا شکار معیشت کو بحال کرنے کے لیے بھی پالیسیاں آگے بڑھا رہے ہیں۔

ٹیمپل یونیورسٹی کے جاپان کیمپس کے ایشین اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جیفری کنگسٹن نے کہا، “‘ایٹمی گاؤں’ ڈرائیور کی سیٹ پر واپس آ چکا ہے”۔ ‘ایٹمی گاؤں’ کی اصطلاح سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور یوٹیلیٹی کمپنیوں کے طاقتور اکٹھ کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس نے عشروں تک جاپان میں ایٹمی توانائی کو فروغ دیا ہے۔ (اور ایسا لگتا ہے کہ پھر سے وہ طاقتور ہو رہے ہیں۔)

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.