پیرس: مارچ 2011 کو شمال مشرقی جاپان کو تاراج کرنے والا سونامی ایک ہی بار سمندر میں ملبے کی بہت بڑی تعداد لے جانے کا باعث بنا، اور اس نے تباہ شدہ عمارات، کاروں، گھریلو سامان اور دوسرے ملبے وغیرہ کے پچاس لاکھ ٹن سمندر میں غرق کر دئیے۔
جاپان کے سرکاری تخمینوں کے مطابق، قریبا ساڑے تین ملین ٹن ملبہ فوراً ہی سمندر میں بیٹھ گیا تھا، جس سے ڈیڑھ ملین ٹن کے قریب پلاسٹک، لکڑی، مچھلی پکڑنے والے جال، شپنگ کنٹینر، صنعتی کباڑ اور لا تعداد دوسری چیزں سمندر میں گہرائی میں جا کر تیرنے لگیں۔
آفت پر غور کرنے والے بحری ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تیرتے ہوئے ملبے نے بحر الکاہل کی پہلے ہی پریشان کن آلودگی میں مزید نمایاں اضافہ کیا ہے۔
کئی برس، ممکنہ طور پر کئی عشروں تک، یہ چیزیں جہاز رانی، سمندری ممالیوں، کچھوؤں اور پرندوں کے لیے مسائل کے باعث رہیں گی، در انداز نسلوں کے لیے مسکن کا کام کریں گی اور جنگلی حیات کے لیے پلاسٹک کے خرد بینی ذرات کی وجہ سے خطرے کا باعث بنیں گی جسے ابھی پوری طرح سمجھا نہیں جا سکا۔ (بڑے سائز کے ملبے میں چھوٹے کیڑے مکوڑے یا پودے اپنا مسکن بنا کر غیر ملکی ساحلوں پر پہنچ سکتے ہیں جس سے وہاں ماحولیاتی توازن بگڑ سکتا ہے۔ پلاسٹک جب انحطاط پذیر ہوتا ہے تو انتہائی ننھے ننھے ذرات میں بدل جاتا ہے جو پانی کی مخلوق کے اندر جا کر بیٹھ سکتے ہیں اور مضرِ صحت ہو سکتے ہیں حتی کہ انسانوں میں بھی مچھلی کھانے سے یہ آلودگی پیدا ہو سکتی ہے۔)