ٹوکیو: وزیرِ اعظم شینزو ایبے نے پیر کو دو برس قبل جاپان کے شمال مشرق میں آنے والے عظیم زلزلے، سونامی اور ایٹمی بحران سے تعمیرِ نو کے کام کو تیز تر کرنے کا عہد کیا اور وعدہ کیا کہ قوم دوسری جنگِ عظیم کے بعد اپنی بدترین آفت سے مضبوط ہو کر باہر آئے گی۔ اس آفت سے قریباً 19,000 لوگ ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 315,000 افراد گھر سے بے گھر ہو گئے، جن میں تباہ ہونیوالے فوکوشیما ایٹمی پلانٹ سے خارج شدہ تابکاری کے پناہ گزین بھی شامل ہیں۔
اس تہری آفت نے ایک ایسی قوم کو حواس باختہ کر دیا تھا جو خود کو آفات کے لیے تیار سمجھتی تھی اور جسے سکھایا گیا تھا کہ ایٹمی توانائی، جو اس وقت ملک کی بجلی کی ضروریات کا قریباً 30 فیصد مہیا کرتی تھی، صاف، محفوظ اور سستی ہے۔ (جاپانی حقیقتاً زلزلوں کے اوپر بستے ہیں اور چھوٹے موٹے زلزلے آنا وہاں معمول کی بات ہے۔ ایک ایسی قوم جو ہر کچھ عرصے بعد ایک شدید قسم کے زلزلے کا سامنا کرتی ہے اور پھر اس سے سنبھل بھی جاتی ہے وہ بھی 2011 کی اس آفت سے چکرا کر رہ گئی۔ اور خدا جانے پاکستان جیسے ملک کا کیا ہو جہاں زلزلے ہمیشہ ‘خدائی قہر’ کا نتیجہ ہوتے ہیں لیکن زلزلے یا قدرتی آفت کی صورت میں آفات سے نمٹنے کی کوئی پیشگی تیاری نہیں کی جاتی۔) پارلیمان کی جانب سے متعین کردہ ماہرین کا ایک کمیشن جسے ایٹمی بحران کی تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی تھی، نے اس بحران کو انسانی ساختہ آفت کہا تھا جو حکومت، نگران اداروں اور پلانٹ آپریٹر کے مابین “ٹکراؤ” سے وجود میں آیا۔
ان آفات کے دو برس بعد شمال مشرق –ایک ایسا خطہ جو پہلے ہی تیزی سے عمر رسیدہ ہوتی آبادی اور مندی کا شکار مقامی صنعت بشمول زراعت جیسے مسائل سے دوچار ہے– میں تعمیرِ نو کا کام ناہمواری سے ہو رہا ہے۔