ٹوکیو: ایک اہلکار کے مطابق، جاپان امریکہ کی حمایت رکھنے والے آزاد تجارتی معاہدے کے لیے مذاکرات میں اپنی شمولیت کا اعلان جمعہ کو کرے گا، جس سے اس معاہدے کو انتہائی درکار اقتصادی دھکا تو لگ جائے گا لیکن اس سے وطن (یعنی جاپان) میں کسان ناراض ہو سکتے ہیں۔
ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ (ٹی پی پی) کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے جاپان کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا اور صارفین کو مصنوعات کا زیادہ انتخاب حاصل ہو گا۔
ٹوکیو کی وزارتِ خارجہ کے مطابق، اگر یہ مذاکرات ایک معاہدے پر منتج ہوتے ہیں تو جاپان سمیت 12 ملکی آزاد تجارتی علاقہ عالمی گراس ڈومیسٹک (کسی مخصوص علاقے میں ایک برس کے دوران پیدا ہونے والی مصنوعات، مال و خدمات کی مجموعی خام مالیت) کے 40 فیصد حصے کا مالک بن جائے گا۔
پارٹی کے ایک اہلکار کے مطابق، وزیر اعظم شینزو ایبے نے اپنی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کے سینئر زعما کو بتایا “میں شام 6 بجے ایک پریس کانفرنس منعقد کروں گا اور (ٹی پی پی) مذاکرات میں شمولیت کے بارے اعلان کروں گا”۔
(کسانوں وغیرہ کی جانب سے) اعتراضات کا زور کم کرنے کے لیے ایبے انتظامیہ اوباما کے ساتھ واشنگٹن میں سربراہ ملاقات کے بعد جاری کردہ ایک مشترکہ بیان کو بڑے زور و شور سے استعمال کرتی رہی ہے۔
اس بیان کے مطابق دونوں ممالک “دو طرفہ تجارت کے حساس شعبوں جیسے جاپان کی کچھ زرعی مصنوعات (چاول وغیرہ) اور امریکہ میں مینوفیکچر شدہ کچھ صنعتی مصنوعات (مثلاً امریکی کاروں)” کو تسلیم کرتے ہیں۔ (بظاہر اس بیان سے ایسے لگتا ہے جیسے جاپان اور امریکہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے اپنے حساس تجارتی شعبوں کو آزاد تجارت کی چھری تلے آنے سے بچا لیں گے۔ لیکن مسئلہ صرف جاپان اور امریکہ کا ہی نہیں اس معاہدے میں 10 اور ممالک بھی شامل ہیں اور جاپان نے شمولیت کا فیصلہ کر بھی لیا تو اسے ہر ایک سے فرداً فرداً مذاکرات کرنا ہوں گے۔)