ٹوکیو: بازارِ حصص گویا چنگھاڑ رہا ہے، ین نیچے آ چکا ہے اور ٹوکیو عرصہ دراز سے تعطل کا شکار تجارتی مذاکرات کے ایک سلسلے میں چھلانگ لگا رہا ہے، جس سے کچھ لوگوں کو کئی برسوں سے نہ کیا گیا یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہونا پڑ گیا ہے: کیا جاپان واپس آگیا؟
وزیرِ اعظم شینزو ایبے، جو عوامی رائے شماریوں میں 70 فیصد سے زیادہ حمایت حاصل کر رہے ہیں، نے پچھلی جمعرات کو دفتر میں اپنا 100 واں دن گزارا، جسے کچھ مبصرین ایک متاثر کن آغاز قرار دے رہے ہیں۔
قدام پسند نظریہ سازی نے چین اور جنوبی کوریا کے ساتھ علاقائی تنازعات کے دوران ان کے سخت سفارتکاری کے منتر کو زیادہ تر طاق پر رکھوا دیا ہے، اور اس کی بجائے وہ جاپان کی تفریطِ زر سے وبال زدہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت میں بڑھوتری کی تحریک پیدا کرنے کا انتخابی نعرہ پورا کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
تجارتی معاہدات، جنہیں کئی برسوں سے پسِ پشت ڈالا جاتا رہا ہے، جاپانی برآمد کنندگان اور صارفین ہر دو کو فائدہ پہنچائیں گے، جو تجزیہ نگاروں کے مطابق زرعی مصنوعات کے لیے زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔