ویانا: نگران تنظیم سی ٹی بی ٹی او نے منگل کو کہا، جاپان کے ایک نگران اسٹیشن سے شمالی کوریا کے فروری کے ایٹمی تجربے کے ممکنہ سراغ پہلی مرتبہ دریافت کیے گئے ہیں، اگرچہ یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ پیانگ یانگ نے کون سا قابلِ انشقاق مادہ استعمال کیا تھا۔
کمپری ہینسو بان ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ٹی بی ٹی او) نے کہا، “سراغ لگائے گئے زی اون ہم جاء (زی اون 131 ایم اور زی اون 133) کی نسبت 50 سے زیادہ دن قبل کیے گئے ایٹمی زنجیری تعامل سے لگّا کھاتی ہے۔ (ہم جاء یا آئسو ٹوپ کسی عنصر کی ایسی اقسام کو کہا جاتا ہے جو طبعی طور پر اصل عنصر سے مختلف لیکن کیمیائی طور پر اس سے ملتی جلتی ہوں۔ ایٹمی دھماکے میں ایک نیوٹران تابکار عناصر یورینیم، پلوٹونیم وغیرہ کے ایٹمی مرکزوں پر داغا جاتا ہے جو ایٹم کو توڑ کر کڑی در کڑی مزید نیوٹران پیدا کرتا چلاتا ہے جو مزید ایٹموں کو توڑتے چلے جاتے ہیں حتی کہ سارے ایٹم ختم نہ ہو جائیں۔ اس طرح جو تعامل ہوتا اسے زنجیری تعامل کہتے ہیں۔”
یہ ڈی پی آر کے (شمالی کوریا) کی جانب سے اعلان شدہ ایٹمی تجربے پر بڑی حد تک پورا اترتا ہے جو اس پیمائش سے 55 روز قبل 12 فروری، 2013 کو رونما ہوا تھا۔
تنظیم نے مزید کہا، تاہم جاپان میں نگران اسٹیشن کی اس دریافت سے اس کلیدی سوال کا جواب حاصل کرنے میں کوئی مدد نہیں مل سکی کہ آیا پیانگ یانگ نے دھماکے میں پلوٹونیم استعمال کی یا یورینیم۔