ٹوکیو: وزیرِ اعظم کی تعلقاتِ عامہ کی خوفناک مشین کے سائے میں “ایبے نامکس” کے عیب گوؤں کا ایک چھوٹا سا، ضدی گروہ اپنی بات سنائے جانے کے لیے جد و جہد کر رہا ہے اور “میں نے کہا تھا نا” کے لمحے کے انتظار میں ہے۔
ایک ایسا سماج جو اتفاق رائے اور ہم آہنگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہاں مخالف رائے رکھنا کافی دشوار ہے، تاہم دانشوروں، مبصرین اور سرمایہ کاروں کے لیے ایبے کے اقتصادی بحالی کے منصوبے کو گمراہ اور ممکنہ طور پر خطرناک قرار دینا اور بھی مشکل کام ہے۔
شک کرنیوالوں، جو جون میں ایبے کی بڑھوتری کی حکمتِ عملی تک اپنی رائے محفوظ رکھے ہوئے ہیں، کے برعکس عیب گو اسے توجہ ہٹانے کا ذریعہ قرار دے کر پرے کر دیتے ہیں: (اور کہتے ہیں) پرانے خیالات، جیسے “صنعتی بڑھوتری” کے لیے ریاستی پشت پناہی اور کچھ چھوٹی موٹی ڈی ریگولیشن، کو نئے نام سے بیچا جا رہا ہے۔
عیب گو “افراطِ زر” تخلیق کرنے یعنی 2 فیصد کے ہدف پر مرکوز توجہ پر سوال اٹھاتے ہیں، اور اس تک پہنچنے کے لیے قابلِ اعتبار راستہ نہ ہونے کی بات کرتے ہیں۔
انہیں خدشہ ہے کہ مرکزی بینک کی صلاحیتوں پر اعتبار نے ٹھنڈے دماغ سے اقتصادی حقیقت کی جانچ پڑتال کی جگہ لے لی ہے اور وہ زری صدمے (زری نرمی کے اقدامات وغیرہ) کے ذریعے جاپان کو بہتر حالت میں لانے پر شبہے کا اظہار کرتے ہیں۔