ٹوکیو: ایسا کوئی بھی شخص جو جاپان کی معیشت میں وسیع تر اکھاڑ پچھاڑ کی توقع کر رہا ہے جس سے مسابقت میں حال رکاوٹیں دور ہو جائیں اس وقت اغلباً مایوسی کا شکار ہو گا جب وزیرِ اعظم شینزو ایبے نے اگلے ماہ اپنی پالیسی کا “تیسرا تیر” جاری کیا، تاہم جو معتدل توقعات لگائے بیٹے ہیں وہ شاید خوش ہو جائیں۔
ایبے نے ساختی اصلاحات اور ڈی ریگولیشن کرنے کا وعدہ کیا ہے جو ان کی نمو پذیری کی حکمتِ عملی کا کلیدی حصہ ہے، ان کی “ایبے نامکس” کا تیسرا جزو جو انتہائی نرم زی پالیسی اور بڑے پیمانے کے اخراجات کے بعد عمل میں لایا جائے گا۔
ٹوکیو میں جے پی مارگن کی جاپانی مالیات و قرضہ جاتی تحقیق کے سربراہ جیسپر کول کے مطابق، “‘تیسرا تیر’ کبھی بھی جادوئی گولی نہیں بنے گا چونکہ ڈی ریگولیشن کا مطلب ہے کہ برتاؤ میں تبدیلی پیدا کی جائے اور وابستہ مفادات سے نئی آنے والی سرمایہ کاری کی جانب حرکت کی جائے”۔
صنعتی مسابقت پذیری پر ایک پینل اور نگران اداروں کی اصلاحات پر ایک پینل کی تجاویز اغلباً بڑھوتری کی حکمت عملی کا بڑا حصہ بنائیں گی۔
جاپان کی بڑی پرانی تاریخ ہے کہ یہاں جرات مندانہ نسخوں اور اچھے ارادوں کے ساتھ اقتصادی اصلاحات کے پیکج تیار کیے جاتے رہے ہیں، جن میں سے اکثر خالی خولی وعدوں کے طور پر ختم ہو گئے۔ اس مرتبہ ٹوکیو انتہائی نرم زری پالیسی پر عملدرآمد کی وجہ سے بین الاقوامی دباؤ کی زد میں ہے، جو ین کی قیمت میں کمی کے باوجود عالمی تنقید سے ابھی تک بچی ہوئی ہے، اور ٹوکیو کو استحکام پذیر بڑھوتری کو یقینی بنانے کے لیے اس کے ہمراہ اصلاحات بھی کرنا ہوں گی۔