جن سے فضائیں معطر تھیں وہ پیڑ کٹ گیا ۔ تحریر ظہیر دانش ۔

جن سے فضائیں معطر تھیں وہ پیڑ کٹ گیا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم آستانہ  امیگریشن سے ابھی بیعت نہیں ہوئے تھے ۔
راوی اس وقت  خلوص محبت بھائی چارگی، بردباری روداری، حب الوطنی، اور وغیرہ وغیرہ کے ساتھ سب اچھا ہی لکھ رہا تھا۔
جب  روزی حاصل کرنے میں ڈر ڈر کر سائیکلوں پر چھپتے چھپاتے جارہے ہوں اس وقت عبادت گاہوں تک جانا جان جوکھوں کا کام ہوتا تھا ۔ لیکن شاباش تھی ان مذہب پرستوں پر کہ جو  عیدین کی نمازوں کے لیے  ٹرینوں میں با وضو سوار ہوکر ڈر تے ڈراتے کسی پارک یا ہال میں منعقد کی گئی نمازوں  ، مقدس مذہبی ریلیوں میں شامل ہو تے تھی۔
اس وقت موبائل فون اس طرح سر جھاڑ منہ پھاڑ آزاد نہیں ہوا تھا کسی کسی کے پاس تھا تو وہ انسان کم اور فوجی زیادہ لگتا تھا ۔ بھائی لوگ پاکستان فون کرنے کے لیے فون بوتھوں پر لائن لگائے کھڑے ہوتے تھی۔ ہر شخص اس عقیدت سے اپنی باری کا انتظار کرتا تھا کہ جیسے آج نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ لائن کے دوران مختلف امور پر تبادلہ خیال ۔ بیئر کے ڈبوں سے لے کر نان الکوحل تک کابے دریغ استعمال عمر کی بندش سے مادر پدر آزاد ہر خاتون پر یتیمی یسیری نگاہ التفات ۔ ہر روز یہی سوچ کر سونا کہ کیا پتہ کل اس جاپان میں رات مقدر میں لکھی ہے بھی کہ نہیں۔ کہا سنا معاف کرانے جیسی راتیں ہوا کرتی تھی ۔

لوگ ایک ایک سال دو دو سال جاپان میں رہنے کے لیے  اللہ سے  دعائی معاہدے کرتے ہوئے کام پر جایا کرتے تھی۔ اپنے نام پر کرائے کے اپارٹ لینا ناممکن سمجھا جاتا جس کا فائدہ اس وقت کے لیگل مافیا نے بھی خوب جم کر اٹھایا ایک ایک اپارٹ میں کئی کئی لوگ تہہ بہ تہہ رکھے جاتے تھی۔گائے بکری یا مرغی کے گوشت کے سالن کو لمبا پانی ہونے کی وجہ سے ہم اسے گائے یا مرغی کا غسل کہتے تھے ۔
جہاں جس کا داؤ لگتا وہ مزدور سے ٹھیکہ دار بننے میں اتنی ہی دیر لگاتا  جتنی دیرزرقا فلم میں طالش نے نیلو کو جلتا ہوا سگار لگانے میں لگائی تھی ۔ اس وقت  بڑے بڑے تعلیم یافتہ نی ہنگو (جاپانی زبان )بولنے  یا بولنے کی اداکاری کرنے والوں کے آگے  زانو ئے تلّمذ تہہ کیے ہوتے یہ نی ہنگو کا زبان دراز اگر لیگل ہوتا تو پھر سمجھو کہ وہ وکیل بھی مبلغ بھی اپلائمنٹ ایکسچینج  بھی فرعون بھی موسی بھی  غرض کسی وقت بھی  اس کو حسب منشا ء کام بتائیں وہ وہی  روپ آپ کے سامنے دھارن کرلیتا انسان کے روپ میں گو گل (Google)  ہوا کرتا تھا کون سا کرشمہ تھا جو اس کی زنبیل میں نا ہو ۔

لیکن  خوش فہمیوں کا یہ موسم سدا سوہاگن نہ رہا اور کسی ناکسی بے ریش یابا ریش کی دُعا کہ اے خداہمیں لیگل بنادے  نے خزان بن کر اجاڑا خوش فہمیوں کا گلشن۔

اور جوں جوں جاپانی خواتین کا معیارگرنا شروع ہوا  ویسے ویسے لیگل  ٹائپ  ایگلوں سے کین (پریفیکچر) کے کین آباد ہوگئی۔ کاروباری مواقع نے غیر قانونی مقیم افراد سے لے کر لیگل افراد تک جاہل سے لے کر ڈاکٹر، وکیل انجینئر تک کی تمیز ختم کر دی جس کی وجہ سے محمودوں پرسوار ہوگئے  ایاز  ۔ لوگ اس وقت بھی عبادت کرتے تھے جب کرائے  پر ہال یا پارک میں نماز ادا کی جاتی تھی۔
جنازے اس وقت بھی اُٹھوائے اور پاکستان بھجوائے جب انھیں بھیجنے پر خا صی رقم خرچ ہوتی تھی لوگ دل کھول کر چندہ دیا کرتے تھے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ چندہ پیا  بھی جا سکتا ہی۔
اس وقت بھی کسی نا کسی اپارٹ میں کوئی نا کوئی بے ریش عالم مل ہی جاتا تھا جو  ریشی کو روزی پر سوار نہیں ہونے دیتا تھا  اس کا معقول اور فی البدیہہ جواب ہر وقت اس کی جیب خاص میں ہوتا کہ وہ قرض لے کر یہاں تک آیا ہے اگر مخصو ص حلیہ کی وجہ سے وہ پکڑا گیا تو  نا صرف اس کی بلکہ اس کے اہل و عیال کی امیدیں  ٹو ٹ جائیں گئیں  راقم کو بھی ایسے امام صاحبان (جو پاکستان میں باقاعدہ امام رہے تھے )کی زیارت کا شر ف حا صل ہو چکا ہے جنھوں نے بنکاک ، فلپائن ،ہانگ کانگ میں اپنی باریشی سے تائب ہوکر بے ریشی پر بیعت کی تھی۔ ۔

کسی کو اپنی بہنوں کی شادیاں کرانی تھیں کسی کو ماں باپ بہن بھائیوں کا سہارا بننا تھا کوئی قرض اتارو گھر سنوارو کی مہم میں جتا ہوا تھا غرض کہ اکثریت مقدس مقصد لے کر دیار غیر میں آئی تھی۔
ہم میں اکثریت مزدر پیشہ  لوگوں کی تھی آج تو جس سے ملو وہ ہم جیسے ملازمت پیشہ لوگوں کو کھوائی سو (بیچارہ ) کہہ کراس طرح لمبی لمبی اُڈیکاں مارتا ہے کہ جیسے یہ ڈھائی تین ہزار ین کی وزیٹنگ کار ڈ کے بزنس مین نازل (پیدا)تو جاپان میں ہوئے لیکن تکلفا ً پیدائیشی سند پاکستان سے بنوائی ہے  جاپان کی انسانیت دوست پالیسی کی وجہ سے نورے  میراثی سے چوہدری نور محمد کا سفر جاگتی انکھوں نے اس جاپان میں بار ہا دیکھا۔
جب تمام سہولیات و مراعات جن کا تصور بھی اپنے ہم مذہب ،ہم کلمہ بھائیوں کے وطن میں نہیں کر سکتے  یہاں ہمیں مقامی جاپانیوں کی طرح ملنا شروع ہوئیں تو  حسب روایت ہماری کھال کھجانے لگی اورموروثی بیماریوں کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئیں ۔
دولت کے بعد خود نمائی یعنی شہرت کی ناگن نے اپنا قدبڑھانے شروع کئے  جس کو ہمارے  اُس وقت کے چند سینئر اخباری ویب سائٹس کے بادشاہ گروں نے محسوس کرلیا اور اس گنگا میں پاپیوں کے پاپ دھونے شروع کردیئے
اپنے من پسند مخیر حضرات ،خود ساختہ مذہبی تنظیموں کے چیئر مینوں کو تلاش کیا گیا  دل کھول کر ان کے خیالات اپنے الفاظ میں بیانات کہہ کر خوبصورت شہ سرخیوں سے سجانا شروع کر دیا ۔
کچھ بیان بازوںکو تو شائد یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بیان کیا ہوتا ہے کب کیا فرمایا بس تصویر دیکھی اور سارا دن گنگناتے ہوئے گذار دیا۔
جس کو  جہاں جس ویب سائٹس پر جگہ ملی وہ کیلے کی جھاڑ سمجھ کر چپ گیا  یا  ویب سائٹس کے بادشاہ گروں نے چپکانے کی کوشش کی ۔
عبادت گاہیں اپنی مرضی کی بننا شروع ہوئیں اور امام بھی اپنی مرضی کا رکھنا دین ایمان کا مسئلہ قرار پایا۔ جاپان میں نماز پڑھانے کے اہل اور خود جماعت کرانے  کے لیے بے چین کئی کئی باریش افراد موجود ہونے کے باوجود پاکستان سے امام بلوائے گئے ۔جن میں سے شائد کچھ کے ویزے پر سوالیہ نشان ہو کہ وہ جاپان میں کس ویزہ سے وارد ہوئے اور کام کیا کر رہے ہیں ۔
سنا   ہے  کل  جنھیں     دستارِ   افتخار  ملی
وہ  آج  اپنے  سروں  کو  تلاش  کرتے ہیں
(جاری ہی)    ظہیر دانش

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.