جن سے فضائیں معطر تھیں وہ پیڑ کٹ گئے(قسط نمبر 3)
جب اللہ نے کچھ تسلی دی تو ہمیں اپنی اپنی من پسند عبادت گاہیں بنانے کا متبرک خیال آیا اور پھر ہر کین میں عبادت گاہیں بننا شروع ہوئیں یہاں تک کہ ایک ہی پریفکچر میں پندرہ منٹ سے لے کر پینتالیس منٹ تک کی مسافت پر دس سے زائد مساجد بنائی گئیں ۔
لیکن جاپان میں مسجد کے ہوتے ہوئے پارک میں احتجاجاً جمعہ کی نمازیں ہوتے ہوئے بھی جاپان کے چشم فلک نے دیکھا ۔عبادت گاہوں میں روایتی سر پھٹول اور اس پر پولیس کیس بھی اب سلمانی ٹوپی کے پیچھے نہیں ۔
جاپان میں نماز پڑھانے اور عالم دین بقلم خود کہلوانے والوں کے ہوتے ہوئے پاکستان سے امام بلوائے گے جس کے ویزے پر سوالیہ نشان ہے کہ جاپان گورنمنٹ سے معاہدہ کسی اور کا اور کام کوئی اور یہ اگر مذہب کے نام پر ہے تو اللہ ہی حافظ۔ ،
عبادتوں ریاضتوں اور تمام علم و عمل کے بعد انسان کی آخری آرام گاہ جیسے قبرستان کہا جاتا ہے وہاں یہ حال کہ ایباراکی کین میں ایک قبرستان کے لئے جگہ لی گئی جس کے روح رواں محترم جاوید زیدی اپنے دوستوں یا گروپ کے ساتھ عرصہ تین سال سے ایک گریو یار ڈ پر جیکٹ پر کام کر رہے ہیں
لیکن یہ قبرستان ہے یادلدل پر بنائی گئی کوئی عمارت کہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی (یاد رہے کہ جاپان میں سب سے زیادہ مساجد بھی اسی ایباراکی کین میں ہیں جہاں عام دنوں میں نماز فجر سے لے کر عشاء تک اگر نمازیوں کی تعداد امام سمیت دیکھی جائے تو انسان عش عش کر اُٹھے )۔ جاوید زیدی صاحب کے بقول جب انہوں نے کام شروع کیا تو کچھ لوگوں نے ان کے نام کی وجہ سے کہا کہ یہ شیعہ فرقہ سے ہے اس لیئے مذہبی تعصب کی وجہ سے انھیں سپورٹ نہیں کیا گیا یا مالی امداد بھی اس طرح نہیں دی گئی جس طرح کہ دینی چاہیے تھی۔
ہماری کم علمی ہے یا ان علماء اکرام کہلوائے جانے والوں کا بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہونا کہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ کیا شیعہ کی میت کو چیل کوؤں کے آگے ڈال دیا جاتا ہے ۔
یا سُنیوں کی میت ایندھن کے کام آتی ہی۔
اہلحدیث کو فرشتے اُٹھا کر لے جاتے ہیں یا کسی کی میت ہوا میں معلق رہتی ہی۔
جب سب کو ہی زمین کے پیٹ میں اترنا ہے تو پھر یہ تقسیم کیسی…..؟۔
میں سمجھتا ہوں کہ شیعہ یا سنی سے زیادہ اس قبرستان کی تعمیر کا مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت کے دل میں ہے کہ وہ مرنے کے بعد اپنی تدفین پاکستان میں کروانا چاہتا ہی۔
قبرستان زندگی میں تو اس کی کوئی مدد کر نہیں سکتا اور مرنے کے بعد وہ یہاں دفن ہونا نہیں چاہتا ۔ یعنی وہ ایسے کام میں ہاتھ کیوں ڈالے جس سے اس کی ذات کو کوئی فائدہ نہیں ۔ اس کے باؤجود مخیر حضرات اور خدا ترس لوگوں نے چندہ دیا اور اب تک تقریبا ًپانچ کروڑ ین اس قبرستان کے پروجیکٹ پر خر چ ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی اس کی تکمیل پر تقریبا دو کروڑ ین مزید چاہیے ۔
قبرستان کے متولی جاوید زیدی بھائی سے قبرستان کی تکمیل کے سلسلے میں بات چیت پر یہ معلوم ہوا کہ لوگ سیاسی یا سماجی دکان سجانے کے لیے رقوم کا اعلان تو بہت دبنگ طریقے سے کرتے ہیں لیکن جب تعمیراتی کام رکے ہوئے ہوں اور امدادی رقوم چیونٹی کی رفتار سے چل کر آنے کی مدت بھی کراس کر جائے تو تقا ضا کرنے پر جواب ملتا ہے کہ ابھی کاروباری حالات صحیح نہیں ہیں ، اس لئے دس روپے کی جگہ ایک روپے پر گذارا کرلو!!۔
مسئلہ ہزاروں روپے یا چند سکوں کے امداد کا نہیں جس کو اللہ نے توفیق دی وہ اپنی بساط کے مطابق دے ورنہ دینے کی نیت ہی کرلی۔
اس کار خیر میں ہم نے اور ہمارے تمام ہم خیال دوستوں ساتھیوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنی خدمات قبرستان پر جیکٹ کے بانی جاوید زیدی بھائی کو دی ہیں کہ ہم رضا کارانہ طور پر قبرستان کے تعمیری کام میں جو بھی مزدوری والا کام ہے کچرا اُٹھا نا پتھر ڈھونا یا جو بھی کام ہو ہم اپنی بساط کے مطابق چھٹی والے دن کرنے کو تیار ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی ، سماجی حضرات شوق تصویر بازی ،سستی شہرت کے لیے بلند و بانگ امدادی اعلان کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے فرض ادا کر دیا اس قسم کی سستی شہرت کے لیے کیے گئے اعلانات یا حرکات سے شائد انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ قبرستان کی تعمیری پروجیکٹ کے تمام ساتھی مشکوک ہو جاتے ہیں کہ جناب جب آپ کو فلا ں فلاں صا حب سے یہ رقم مل چکی ہے تو پھر کیوں کام رکا ہوا ہی۔
حالاں کہ اعلان کی گئی رقم کا عشروعشیر بھی جاوید زیدی صاحب کو نہیں دیا جارہا۔ ابھی حال ہی میں ایباراکی کین میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں تقریبا دو سال جاپان سے باہر رہنے والا اور ایک گروپ کاصدر کہلانے والا شخص بھی موجود تھا ۔
اس تقریب میں جاوید زیدی صاحب کو بھی تبرکاً حسب ضرورت بلوالیا گیا اور ان سے تقریر کروانے کے بعدحسب عادت اس گروپ کے صدر یا جو بھی ہیں انہوں نے سستی شہرت کیلئے قبرستان کو اپنے ساتھیوں کے تعاون سے ایک ہزار مان یعنی ایک کروڑ ین کے قریب چندہ اکھٹا کر کے دینے کا اعلان کیا تھا۔
لیکن وقت گزرنے کے بعد بھی رقم فراہم نہیں کی گئی امدادی رقم کے لیئے بار بار مودبانہ اصرار کے باوجود حسب عادت ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا بہت مشکل سے ایک کروڑ ین کے بجائے ایک سو پچیاسی مان کے قریب دئیے گئے اور کہا گیا کہ اس پر ہی اکتفا کر لیں ۔
شہزاد نامی شخص اس سے پہلے بھی جوڈو کے کھلاڑی شاہ حسین کو ان کے ٹورنامنٹ کا ٹکٹ دینے کا وعدہ کر کے مکر چکا ہے بار بار اصرار کے بعد اس نے وہ کہانیاں سنائیں جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا نا ہی کوئی سر سنگیت اس ٹکٹ سے ملتا تھا یعنی تاویلیں حیلے بہانے تو بہت کئے لیکن اصل چیز ٹکٹ نہیں دیا ۔
اب قبرستان کے مسئلہ پر بھی وہی سستی شہرت کا ناٹک کہ اعلان کر دو دینا کس نے ہی۔
گریو یار ڈ کے تمام دوستوں نے عرصہ تین سال میں جو محنت مشقت اس قبرستان کے لیے کی وہ قابل تحسین ہے لیکن جب تک یہ قبرستان مکمل نہیں ہو جاتا یہ ذہنی و جسمانی محنت پریشانیاں کسی کو نظر نہیں آئیں گی قبرستان کو یا اس کی زمین کو لیے عرصہ تین سال سے زیادہ گذر جانے کے باوجود یہ کیسا کار خیر ہے کہ ابھی تک مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
جب ہم کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی لیتے ہیں تو اس کی تحقیقات کر لیتے ہیں لیکن کیا قبرستان جیسی ضروری چیز کے لیے کوئی تحقیق نہیں کی گئی کہ آیا وہاں پر ہمیں زمین کا مسئلہ اور اس کی تعمیر سے لے کر تدفین تک کے لیے کیا کیا پریشانیاں ہو سکتی ہیں۔
اب اتنے عرصے کی محنت اور جو رقم اس پر خر چ ہو چکی ہے اس کو ادھورا بھی نہیں چھو ڑا جاسکتا جاوید زیدی صاحب کے بقول انشاء اللہ اپنی مشین وغیرہ بیچ کر اس رقم سے قبرستان کی تعمیر کا کچھ حصہ اس سال کے اندر اندر تدفین کے قابل ہو جائے گا ۔
عام عوام ہونے کی حیثیت سے عام خیال یہ ہے کہ ایسا کام کا بیڑا کیوں اٹھایا گیا جس کو کرنے کی سوجھ بوجھ ہی نہیں تھی۔ ایسی جگہ جہاں قدم قدم پر پریشانیاں ہی پریشانیاں ہوں اس کے علاوہ کیا پورے جاپان میں کوئی ایسی جگہ نہیں دستیاب ہو رہی تھی کہ جو کم خرچ بالا نشین ہو۔ تین سال سے زائد کا عرصہ گذرجانے اور امدای رقم کی فراہمی کی رفتار دیکھ کر کیا یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ قبرستان مزید آئندہ تین سال کے بعد مکمل ہو کر تدفین شروع کر دے گا۔
قبرستان جاپان میں ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس میں تدفین کی قیمت پاکستانی بحریہ ٹاون کے برابرہو۔ انسان ہونے کی حیثیت سے اس قسم کے کام کے لیے جتنی بھی سہولت مُردے سے لے کر اس کے لو احقین کو دی جاسکتی ہو وہ دینی چاہیئے اور کوشش کر نی چاہیے تھی کہ قبرستان کی جگہ دور ہی سہی لیکن انتہائی کم قیمت پر جلد اور فوری تکمیلی مراحل طے کر کے تیاری کی جاتی لیکن نا جانے کیا وجہ تھی کہ ملک کے بہترین کاروباری اعلی دماغ لوگ قبرستان جیسی جگہ لینے میں اس قدر الجھ گئے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
قبرستان کی تکمیل کا مسئلے میں کیا یہ محسوس نہیں کیا جارہا کہ جوں جوں دیر ہورہی ہے لوگوں کی دلچسپی بھی کم ہوتی جارہی ہے ۔
جب بھی جاوید بھائی کی زیارت ہوتی ہے قبرستان یاد آجاتا ہے اور پھر جس کو بھی کوئی سوال سوجھتا ہے وہ اپنا فرض سمجھتے ہوئے اُسے جاوید بھائی پر دا غ دیتا ہے کسی کو یہ دکھ ستاتا ہے کہ اس کا نام قبرستان کمیٹی میں شامل نہیں یا وہ شامل کروانے کی خواہش لیے بیٹھا ہی۔
ہماری قبرستان کی تعمیر کے فرائض ادا کرنے والے تمام مخلص دوستوں سے یہی گذار ش ہے کہ وہ اس قبرستان کی تکمیل تک اپنے آپ کو اون ڈیوٹی ہی سمجھیں اور اس سلسلے میں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اس کار خیر کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہونچائیں بلکہ مددکے لیے ان مخلص دوستوں سے بھی رجوع کریں جو اسی ہی پریفیکچر یعنی ایباراکی کین میں جہاں تقریباً دس سے زائد مساجد ہیں وہاں اٹھارہ کروڑ ین کی رقم سے ایک ا دارہ بنانے کا لازوال مقدس با برکت بیڑہ اُٹھائے ہوئے ہیں اور اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے انتہائی ایکدم تعلیم یافتہ شعلہ بیان مقرر پروجیکٹ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے پاکستان سے بلوا چکے ہیں حالاں کہ ترقی یافتہ مہذب قوموں اور ملکوں میں کسی پر و جیکٹ پر کام کرنے کے لیے شعلہ بیانی کی نہیں بلکہ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔
موصوف ڈائریکٹر صاحب کی زیر نگرانی اس انتہائی ضروری مقدس پرجیکٹ کی جلد از جلد تکمیل کی بازگشت سنائی دی تھی اس پروجیکٹ کی متبرک تصویر بھی اتنی مرتبہ دکھائی گئی تھی کہ لوگوں کے بقول وہ تصویریں حفظ ہو گئی تھی۔ لیکن پھر اٹھارہ کر و ڑ ین سے اچانک تین یا چار کر و ڑ ین پر کسی پاچنکو(جوئے خانی) کی جگہ پر مسجد قائم کرنے کی نوید سنائی گئی ۔
لیکن پھر نصیب دشمناں وہ بھی حسرت دید ہی لگتی ہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے چند دوستوں کو عبادت گاہوں کے لیے جگہ بھی وہ ہی ملتی ہیں جن کو مذہب میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا یا حرام کہا گیا۔ یعنی جوئے خانے یا وغیرہ وغیرہ ۔ اس بات پر یہ فخر کرتے بھی دیکھا گیا کہ مالک نے ایک جوئے خانے کی قسمت میں مسجد بننا لکھا تھا حالاں کہ مسلمان ہونے کے باوجود شراب پینے لحم خنزیر خودکھانے بیوی بچوں کو کھلانے والے ، جوئے ، قمار خانوں سے لطف اندوز ہونے والے بھی مسجدوں کی اگلی صفوں میں یا مقدس کتا ب کی کانفرنس کرنے والے بے حس بھی اسی جاپان میں پائے جاتے ہیں۔
جس کانفرنس کے لیے جتنی دعوتیں ریاکاریاں دوسروں کو بلوانے کے لیے دکھائی گئی کیا یہ ریاکار بُڑ بک بتا سکتے ہیں کہ اس تقریب میں ان میں سے کس کس کے اہل و عیال با نفس و نفیس شریک تھے یا تھیں ؟ یہ تو اتنے گئے گذرے ناسور ہیں کہ اپنے بچے کہلائے جانے والے بچوں پر بھی قادر نہیں کہ انھیں گھسیٹ کر بھی مسجدوں یا اس قسم کی مذہبی تقریبات میں لا سکیں۔
شرم مگر تم کو نہیں آتی ۔انشاء اللہ ہم کبھی کسی پر الزام نہیں لگائیں گے اس لیے کہ الزام لگانے والا قیامت کے دن جب تک اپنے الزام کو ثابت نہیں کرتا یا اس کا گواہ نہیں لاتا اس کو جانے نہیں دیا جائے گا اور وہ اس وقت یعنی روز قیامت کبھی بھی ایسا نہیں کر سکتا ۔
ہم الزام نہیں لگاتے ہمارے پاس جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے ثبوت گواہوں کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ ریا کار ناسور مذہبی کتابوں کی کانفرنس کرنے سے پہلے اپنے گناہوں کی معافیاں مانگیں نا جانیں کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے دوسروں کو قرانی آیات سنانے سے پہلے اس پر عمل کروجو جتنا زیادہ علم رکھتا ہے اس کی سزا بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔ ہمیں تمام قولی فعلی لن ترانیوں کے بعد اس رب العالمین کی بارگاہ میں ہی لوٹ کر جاناہے پھر وہ ہمیں بتائے گا کہ ہم کیا کیا کرتے تھی۔ہماری دُعا ہے کہ اللہ ان زبانی موشگافیاں کرنے والوں کے شر سے محفوظ رکھے ۔ اور قبرستان جیسے ضروری مسئلے پر جاوید بھائی کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
اے قاسم اشیاء تیرے عجب فیصلے دیکھے دستار اُن کو بخشی جو سر ہی نہیں رکھتے
ظہیر دانش