پردہ چشم دوبارہ اگانے کے لیے دنیا کی پہلی آئی پی ایس سیل کلینکل آزمائش شروع

ٹوکیو: مریض کے اپنے جسم سے حاصل شدہ خلیاتِ ساق کو استعمال کرتے ہوئے پہلی کلینیکل تحقیق جمعرات سے شروع ہوئی۔ ایک حکومتی کمیٹی نے پچھلے ماہ ان آزمائشوں کی منظوری دی تھی، جو ریکےن سنٹر برائے ارتقائی حیاتیات اور کوبے میں ادارہ برائے حیاتی کیمیائی تحقیق و ایجاد (آئی بی آر آئی) ہسپتال کے تحت مشترکہ طور پر سر انجام پائے گی۔

وزیرِ صحت نوری ہیسا تامورا نے دو تحقیقی اداروں کی ایک تجویز کی منظوری دی جو انڈیوسڈ پلوری پوٹینٹ (آئی پی ایس) خلیاتِ ساق استعمال کر کے عمر رسیدگی سے بصارت میں کمی (اے ایم ڈی) — ایک طبی حالت جو بوڑھے لوگوں میں نابینا پن کی وجہ بنتی ہے — کے علاج کی جانچ کریں گی۔ (خلیاتِ ساق ایسے خلیات ہوتے ہیں جن سے کوئی بھی جسمانی عضو دوبارہ اگایا جا سکتا ہے۔ پہلے یہ خلیات صرف ماں کے پیٹ میں موجود جنین یا ادھورے بچے سے حاصل کیے جا سکتے تھے تاہم اب انہیں انڈیوسڈ پلوری پوٹینٹ نامی تکنیک وغیرہ کے ذریعے مصنوعی طور پر بھی تیار کر لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ان نابینا مریضوں کے جسم سے ہی خلیات لے کر انہیں خلیاتِ ساق میں بدلا جائے گا اور پھر ان سے آنکھوں کی مرمت کے لیے خلیات تیار کر کے پیوند کاری وغیرہ کی جائے گی۔)

خلیاتِ ساق پر تحقیق ایک نیا میدان ہے جو ایسی بیماریوں کا علاج مہیا کر سکتا ہے جو بھی تک لا علاج ہیں، اور سائنسدانوں کو امید ہے کہ اے ایم ڈی کے علاج کے لیے کلینیکل آزمائشیں دسیوں لاکھ لوگوں کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہیں جن کی بینائی چھن چکی ہے۔

ایک ترجمان کے مطابق، ریکےن مریضوں کی جلد سے حاصل شدہ خلیات کے ذریعے خلیاتِ ساق تیار کرے گا۔ یہ بیماری صرف جاپان میں ہی 700,000 لوگوں کو دکھ میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.