ٹوکیو: اقوامِ متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ نے جمعے کو شمالی کوریا پر زور دیا کہ وہ سئیول اور ٹوکیو میں سماعت کیے گئے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بیانات کا جواب دے۔
ریٹائرڈ آسٹریلوی جج مائیکل کربی، جنہوں نے تین رکنی تحقیقاتی کمیشن کی قیادت کی، نے 95,000 کے قریب سابق جاپانی نسلاً کوریائی باشندوں–جو کئی عشرے قبل جنوبی کوریا ہجرت کر گئے تھے — کی حالتِ زار کے بارے میں بھی زیادہ آگاہی کی ضرورت پر زور دیا۔
1950 کے عشرے کے اواخر سے نسلاً کوریائی باشندے یہ سوچ کر شمالی کوریا جاتے رہے ہیں کہ وہ “زمین پر جنت” پائیں گے، جس کی بجائے وہ وہاں صرف غربت اور امتیاز پاتے ہیں۔
کمیشن نے جمعرات اور جمعے کا دن ٹوکیو میں گزارا اور شمالی کوریا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بیاناتِ حلفی اکٹھے کیے۔
اس کمیشن –جو شمالی کوریا کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا معائنہ کرنے والا اقوامِ متحدہ کا پہلا ماہر پینل ہے– نے سئیول میں بھی پانچ دن گزارے تھے جہاں اس نے دنیا سے کٹی ہوئی اس ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بیانات جمع کیے۔
کربی نے بار بار شمالی کوریا سے اپیل کی ہے کہ ان کی ٹیم کو رسائی دے۔