گنما کین تھاتے بیاشی سٹی میں پاکستانی کے یارڈ پر 23 اور 24 ستبمر کی رات کو یارڈ کا بند دروازہ پھلانگ کر چند پاکستانیوں کا یارڈ میں سوئے ہوئے پاکستانی پر حملہ
گنما کین تھاتے بیاشی شہر میں اپنے کمرے میں سوئے ہوئے پاکستانی پر چندپاکستانیوں نے حملہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق گنما کین تھاتے بیاشی میں گاڑیوں کے مشہور تاجر اور روزنامہ اخبار کے چیف ایڈیٹر خاور کھوکر کے یار ڈ پر 23 اور 24 ستمبرپیر اور منگل کی درمیانی شب کچھ لوگ یار ڈ کا مین گیٹ پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور یارڈ میں سوئے ہوئے عزیز خان نامی پاکستانی کو بری طرح تشددکا نشانہ بنایا جس سے عزیز خان کے جسم پر اندرونی چوٹیں آئیں بلکہ بائِیں ہاتھ کی ہتھیلی پر تیز دھار چھری لگنے کی وجہ سے شدید زخم آئے جس میں پانچ ٹانکے لگے ہیں اور دائیں ہاتھ کی کہنی کے پاس دانت سے کاٹنے کے زخم بھی لگے ہیں۔ عزیز خان کے بقول وہ خاور کھوکر کے یارڈ میں اپنے کمرے میں سوئے ہوئے تھے کہ اچانک کچھ لوگوں نے اُسے ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچا اور لاتوں کھونسوں سے اُسے مارنا شروع کردیا۔ حملہ آور عزیز خان کو مارتے ہوئے باورچی خانے تک لے آئے اور وہاں پڑی ہوئے چھری سے اس پر حملہ کیا جس سے بچنے کی کوشش میں عزیز خان کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر گہرے زخم آئے اور پانچ ٹانکے لگے ۔
مزید تفصیل کے لیے خاور کھوکر کے یارڈ پر جاکر عزیز اللہ خان سے رابطہ کیا گیا جس کی تفصیل یہ عزیز اللہ خان کی زبانی یہ ہے کہ 23 ستمبر بروز پیر 2013کو کامران نامی شخص (جو کہ جاپان میں رفیوجی کے ویزے پر ہے اور اپنے آپ کو ملک یار محمد نامی شخص کا کزن یا بھائی بتاتا ہے ) تقریبا شام پانچ بجے کے قریب بغیر اجازت یار ڈ کے بند دروازے کو کھول کر اپنی گاڑی سمیت اندر داخل ہو گیا۔ جس پر عزیز خان نے کامران کو ٹوکا اور اس طرح بغیر اجازت یارڈ کے اندر داخل ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا تم اس طرح کسی جاپانی کے یارڈ پر بھی بلا اجازت داخل ہو سکتے ہو جس طرح تم ہمارے یار ڈ پر مین گیٹ بند ہونے کے باوجودبغیر اجازت کے گیٹ کھول کر گاڑی سمیت اندرداخل ہوگئے۔ قارئین یاد رہے کہ جاپان میں 22 اور 23 ستمبر اتوار اور پیر کو جاپان میں کلینڈر کی چھٹی تھی جس کی وجہ سے یارڈ پر عزیز خان کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ اور عام تعطیل ہونے کی وجہ سے یارڈ کا دروازہ بند تھا۔ جسے کھول کر کامران نامی شخص بغیر اجازت اندر داخل ہوا تھا۔ عزیز خان نے کامران کو اس طرح بغیر اجازت اندر داخل ہونے پر روکا تو ان کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔ اور عزیز خان نے کامران کو کہا کہ وہ فوراً ہی یارڈ سے باہر چلا جائے لیکن بار بار سمجھانے کے باوجود کامران جب یارڈ سے نہیں گیا توعزیز خان نے کہا کہ اگر تم یہاں سے نہیں گئے تو میں چلا جاتا ہوں اور عزیز خان کامران نامی شخص کو یارڈ پر ہی چھو ڑ کر چلا گیا۔ اس کے بعد کامران نے خاور کھوکر کو فون کر کے یارڈ پر بلوایا اور شدید غصے کا اظہار کیااور کہا کہ میں بندے لے کر آوں گا اور عزیز کو نہیں چھوڑوں گا۔ روزنامہ اخبار کے مدیر اعلیٰ اور گاڑیوں کے مشہور تاجر یارڈ کے مالک خاور کھوکرنے کامران کی بغیر اجازت یارڈ کے اندر داخل ہونے والی غیر اخلاقی حرکت کے باوجود اسے یعنی کامران کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن کامران بار بار یہی کہتا رہا کہ میں اس بے عزتی کا بدلہ لوں گا اور بندے لے کر آوں گا۔ تقریباً چھ یا ساڑھے چھ بجے تک یارڈ کے مالک خاور کھوکر کے سمجھانے کے بعد کامران واپس چلا گیا ۔لیکن اتنی منت سماجت اور سمجھانے کے باوجود کامران اپنے ساتھیوں کے ساتھ رات بارہ بجے کے قریب دوبارہ آیا اور مین گیٹ بند ہونے کے باوجود اس پر چڑھ کر اندر داخل ہوا اور پھر اپنے کمرے میں سوئے ہوئے عزیز خان کو کھینچ کر باہر نکالا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مارنا شروع کردیا۔ عزیز خان کو مارتے ہوئے یہ لوگ کمرے کے برابر میں باورچی خانے تک لے آئے اور وہاں پڑی چھریاں اُٹھا لیں تین لوگوں کے تشدد سے نڈھال عزیز خان اپنے آپ کو بچاتے ہوئے چھری سے زخمی بھی ہوا اور اس کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی زخمی ہوئی جس پر پانچ ٹانکے آئیں ہیں ان کے دائیں ہاتھ کی کہنی کے پاس کسی کے کاٹنے کا نشان بھی ہے جو کہ کئی روز گذر جانے کے باوجود ابھی بھی دیکھا جاسکتا ہے۔۔ عزیز خان کے بقول کامران اور اس کے ساتھیوں نے چھریاں پکڑی ہوئی تھیں عزیز خان کے بقول وہ چھریاں پولیس اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ حملہ آور کامران اور اس کے ساتھی عزیز خان کو زخمی کر نے کے بعد دوبارہ مین گیٹ کے اوپر چڑھے اور گیٹ پھلانگ کر بھاگ گئے تھے۔
زخمی ہونے کے بعد عزیز خان نے ساری رات تڑپ تڑپ کر گذاری یارڈ پر موجود فرسٹ ایڈ اور اپنے دیسی ٹوٹکوں سے اپنے زخموں کی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کر تا رہا۔ ہمارے پوچھنے پر کہ اس نے پولیس یا خاور کھوکر کو کیوں نہیں بلوایا تو عزیز خان کا کہنا تھا کہ وہ اس اچانک حملہ سے انتہائی خوفزدہ ہوگئے اورانھیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں ان کی تمام توجہ اپنے بہتے خون اور اندرونی چوٹوں کی تکلیف پرتھی انھیں یارڈ کے مالک خاور کھوکر کی عزت کا بھی خیال تھا کہ کہیں ان کی وجہ سے خاور کھوکر کو کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے عزیز خان جاپان میں چھ سال سے مقیم ہے لیکن انھیں ابھی تک اچھی طرح جاپانی زبان بولنا نہیں آتی۔ صبح جب خاور کھوکر یارڈ پر آئے تو انہیں معاملے کی نزاکت کا احساس ہوا اور وہ فوراً عزیز خان کو اسپتال لے گئے جہاں پر عزیز خان کو چھری کے زخم پر پانچ ٹانکے لگائے گئے اور اندرونی چوٹوں کے لیےطبی امداد فراہم کی گئی۔
عزیز خان پر جان لیوا حملہ ہونے کے بعد سے اب تک کامران نامی شخص کے بھائی ملک یار محمد پانچ چھ مرتبہ عزیز خان سے ملاقات کر چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح معاملہ آپس میں ہی حل کر لیا جائے اور مقامی پولیس تک اس معاملے کو طول نہ دیا جائے تو بہتر ہے۔ لیکن عزیز خان کے بقول ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور وہ اب کامران نامی شخص سے خوفزدہ ہیں اس لیے کسی بھی صورت میں معاملہ کو سادگی سے حل نہیں کرنا چاہتے وہ کمزور ہیں اس لیے وہ اب صرف مقامی پولیس یا قانون پر انحصار کر رہے ہیں ۔چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو وہ مقامی پولیس اور قانون سے ہی مدد لینا چاہتے ہیں۔
قارئیں اکرام ہم آپ کی یادداشت کے لیے بتاتے چلیں کہ جاپان میں رفیوجی کے ویزے پر مقیم کامران نامی شخص اپنے آپ کو ملک یار محمد کا بھائی بتاتا ہے۔ ملک یار محمد جاپان میں پاکستان ایسو سی ایشن ندا اچکزئی پینل کے عہدیدار بھی ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق ملک یار محمد نے مقامی پولیس کو بھی یہی بتایا ہے کہ وہ جاپان میں پاکستان کیمونٹی کی ایسو سی ایشن کے اعلی عہدیدار ہیں انھیں کئی ہزار پاکستانیوں کی حمایت حا صل ہے لیے وہ اس جھگڑے کا تصفیہ آپس میں طے کر انے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لہذا مقامی پولیس اس معاملے کو موصوف پر چھو ڑ دے ۔
خاور کھوکر کے یارڈ پر اپنے کمرے میں سوئے ہوئے عزیز خان پر جان لیوا حملہ ہوئے تقریباً بارہ دن ہوچکے ہیں۔ کامران اور اس کے ساتھیوں میں سے ابھی تک کسی کی بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
یہ تفصیل خاور کھوکر صاحب کے یارڈ پر جاکر حا صل کی گئیں ہیں جہاں پر زاہد خان صاحب بھی موجود تھے۔ اور یہ تمام تفصیلی گفتگو زاہد خان صاحب کی موجودگی میں ہوئی ہیں۔ ہم غیر جانبداری سے اس معاملے کی مزید تفصیلات آپ تک پہونچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔