ٹوکیو: ملک کی نئی سلامتی حکمتِ عملی کے ایک مسودے کے مطابق، جاپان ہتھیاروں کی برآمدات پر اپنی خود عائد کردہ پابندی پر نظرِ ثانی کا منصوبہ رکھتا ہے جیسا کہ وہ عالمی امن برقرار رکھنے میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا خواہشمند ہے، تاہم یہ تجویز چین اور جنوبی کوریا کے ہوش اُڑا سکتی ہے۔
دونوں ممالک میں جاپان کی زمانہ جنگ کی جارحیت پر اب بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور جاپان کی جانب سے فوجی طور پر زیادہ فعال ہونے کا کوئی بھی فیصلہ اغلباً کشیدگی کی وجہ بنے گا۔
جاپانی وزیرِ اعظم شینزو آبے نے دسمبر میں دوسری مرتبہ عہدہ سنبھالا تھا جو شاذ و نادر ہی ہوتا ہے، اور عہد کیا تھا کہ فوج کو مضبوط کریں گے تاکہ اس صورتحال سے نمٹا جا سکے جسے جاپان سلامتی کے خطرناک ہوتے ماحول سے تعبیر کرتا ہے جس میں زیادہ جارح مزاج چین اور ایک ناقابلِ پیشن گوئی شمالی کوریا شامل ہیں۔
جاپان نے 1967 میں اسلحہ کی برآمدات پر “تین اصول” وضع کیے تھے، اور کمیونسٹ حکومت والے ممالک یا کسی عالمی تنازع میں ملوث ممالک یا اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کا شکار ممالک کو فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔
پابندیوں میں کسی بھی قسم کی نرمی سے فائدہ اٹھانے والے دفاعی ٹھیکے داروں میں متسوبشی ہیوی انڈسٹریز لمیٹڈ اور کاواساکی ہیوی انڈسٹریز لمیٹڈ بھی شامل ہیں۔