وارسا، پولینڈ: اقوامِ متحدہ کے موسمی تبدیلیوں پر مذاکرات پیر کو ایک پُر تناؤ ہفتے میں داخل ہوئے جب عالمی حدت پیدا کرنے والی گیسیں کم کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کو مسلسل دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں جاپان کی جانب سے اخراج کم کرنے کا رضاکارانہ ہدف ترک کرنا بھی شامل ہے۔
یہ دو عشرے پرانے مذاکرات ابھی تک کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں، جو سائنسدانوں کے مطابق سیارے کو گرم کر رہی ہیں، کے اخراج کم کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ٹائیفون سے تباہ حال فلپائن کے ایلچی کی جانب سے آنسو بھری فریاد کے باوجود کسی بڑے کاربن آلودگی پیدا کار نے اخراجات کم کرنے کے لیے اپنے وعدوں میں اضافہ نہیں کیا۔
ان اقدامات نے ترقی پذیر ممالک کی جانب سے تنقید کو جنم دیا جو کہتے ہیں کہ دنیا کے امیر ممالک پر موسمیاتی تبدیلیوں کی تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اس سے لڑنے کے لیے آگے آنا چاہیئے۔
بیشتر آسٹریلوی معیشت دان اتفاق کرتے ہیں کہ صنعت کی جانب سے کاربن پر ٹیکس ادائیگی کے بغیر ملک 2020 تک اخراج میں 5 فیصد کمی کا رضاکارانہ ہدف حاصل نہیں کر سکے گا۔
جاپان نے بھی کہا ہے کہ وہ 1990 کے پیمانے کے مقابلے میں 25 فیصد اخراج کم کرنے کا ہدف غیر حقیقی تھا۔