ٹوکیو: ملکی میڈیا کے مطابق، جاپان کی اعلی ترین عدالت نے بدھ کو 2012 کے انتخابات، جو وزیرِ اعظم شینزو ایبے کو اقتدار میں لائے تھے، کے کچھ حلقوں کی رائے شماری کو غیر آئینی قرار دیا چونکہ دیہی اور شہری ووٹ کی اہمیت میں فرق تھا، تاہم عدالت نتائج کو کالعدم قرار دیتے دیتے رہ گئی۔
انتخابات کو کالعدم قرار دینے سے سیاسی انتشار پیدا ہو جاتا چونکہ کوئی قبل ازیں مثال موجود نہیں، تاہم کچھ کو شبہ تھا کہ سپریم کورٹ ایسا موقف اپنائے گی جیسا کہ اعلی ترین عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کی کشتی میں سوار ہونے کے لیے مشہور نہیں ہے۔
پچھلے برس انتخابات میں کی گئی تبدیلیوں کو (ووٹوں کی) تقسیم کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ناکافی قرار دیتے ہوئے عدالت نے پارلیمان پر زور دیا کہ وہ مزید اصلاح کرے۔
فیصلے سے قبل مورگن اسٹینلے ایم یو ایف جی، ٹوکیو کے چیف معیشت دان رابرٹ فیلڈ مین نے لکھا، “انتخابی اصلاح آبے نامکس کے لیے ایک بنیادی معاملہ ہے”۔
“ووٹروں کی اہمیت میں موجود بڑی تفریق ختم کرنے والی انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخابی محرکات، جنہوں نے وابستہ مفادات تخلیق کیے اور ان کی پاسبانی کرتے ہیں، تبدیل نہیں ہوں گے۔ چنانچہ اقتصادی اور مالیاتی دونوں طرح کی اصلاح انتہائی مشکل رہے گی۔”
آبے نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ انہوں نے فیصلے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اب اسے مزید غور سے پرکھیں گے۔