ٹوکیو: جاپان کو اکثر ایک برآمد کرنے والی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کی وجہ میں کچھ حصہ اس ملک کی اعلی درجے کی کار ساز کمپنیوں اور صارفی الیکٹرونکس کی کمپنیوں کا ہے۔ تاہم، اس قوم کو اپنی توانائی کی بیشتر ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار بھی کرنا پڑتا ہے، خصوصاً جبکہ یہ 2011 میں فوکوشیما ڈائچی ایٹمی بجلی گھر پر واقعات کے بعد مقامی طور پر تیار کردہ ایٹمی بجلی پر انحصار کم کرنے کے طریقوں کی زیادہ سے زیادہ تلاش میں مصروف ہے۔
تاہم ایک سائنسدان کا دعویٰ ہے کہ جاپان الجی (جوہڑ جالا، پنجابی میں اسے اُلّی بھی کہا جاتا ہے) کو ایندھن میں تبدیل کر کے اپنی توانائی کی درآمدات کی ضرورت کو مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے۔
شِن واتانابے، جو تسوکوبا یونیورسٹی میں حیاتی اور ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر ہیں، زور دیتے ہیں کہ بورٹوکوکّس اور آؤرانٹیوکی ٹرائم نامی الجی کی اقسام میں حیاتی ایندھن بنانے کا زبردست امکان موجود ہے جس سے ابھی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ (حیاتی ایندھن یا بائیو فیول پودوں یا جانوروں کی باقیات سے ایندھن بنانے کو کہتے ہیں۔ مثلاً برازیل اپنے گنے کے رس سے ایندھن بناتا ہے جسے پٹرول وغیرہ میں مکس کر کے استعمال کیا جاتا ہے اور پٹرول کی بچت ہوتی ہے۔) نہ تو یہ انسان استعمال کرتے ہیں، جس سے کھانے کی قیمتوں میں اضافے پر کسی قسم کا اثر بھی نہیں ہو گا۔ (مکئی سے تیار کردہ حیاتی ایندھن کو اسی وجہ سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ پیداوار انسان کی بجائے مشین کے پیٹ میں چلی جاتی ہے۔) مزید برآں، واتانابے کا کہنا ہے کہ مکئی کے مقابلے میں، الجی کے دو ڈورے، فی یونٹ کے حساب سے، ایندھن کی کئی گنا زیادہ مقدار پیدا کر سکتے ہیں۔