ٹوکیو: خبروں کے مطابق، جاپان کے نئے متنازع سرکاری رازداری کے بل پر ہفتے کو دانشوروں اور عالموں کے ایک گروپ، جن میں دو نوبل انعام یافتگان بھی شامل تھے، ان الفاظ میں تنقید کی “جنگِ عظیم کے بعد کے جاپان میں جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ”۔
جمعے کی رات دائت نے ایک نیا قانون منظور کیا تھا جو ایسے لوگوں کو سخت تر سزائیں دے گا جو سرکاری راز افشا کرتے ہیں، باوجودیکہ کہ عوام نے خدشات کی بنا پر ہاہاکار مچائی تھی کہ یہ قانون استبدادی ہے اور ذرائع ابلاغ کی آزادی و عوام کے جاننے کے حق سے متصادم ہو گا۔
نئے قانون پر سخت الفاظ میں کیے گئے ایک حملے میں 31 دانشوروں پر مشتمل ایک گروپ، جن میں نوبل پرائز یافتہ توشی ہیدے ماساکاوا اور ہیدےکی شیراکاوا بھی شامل ہیں،نے جاپانی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ “بنیادی انسانی حقوق اور عدم تشدد کے حامی اصولوں” کو خطرے میں ڈال رہے ہیں جو ملک کے آئین نے قائم کیے ہیں۔
یہ قانون حکومتی وزراء کو اختیار دیتا ہے کہ وہ دفاع، سفارتکاری، جوابی انٹیلی جنس اور انسدادِ دہشت گردی سے متعلق معلومات کو سرکاری راز قرار دے سکیں۔
یہ بل سرکاری راز افشا کرنے، اور اس کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طریقوں مثلاً بلا اجازت داخل ہو کر راز حاصل کرنے، کے قصور وار قرار دئیے گئے افراد کے لیے 10 برس تک سزائے قید کی اجازت دیتا ہے۔