ٹوکیو: جاپانی حکومت نے پیر کو قومی نشریاتی ادارے این ایچ کے کے نئے سربراہ کے اظہارِ خیال سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ مذکورہ سربراہ نے کہا تھا کہ دورانِ جنگ شاہی فوج کی جانب سے جنسی قیدیوں کا استعمال صرف جاپان میں ہی رائج نہیں تھا۔
کاتسوتو مومی نے ہفتے کو کہا تھا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران خواتین کو زبردستی فوجی چکلوں میں ڈالنے کا رواج “جنگ میں مصروف ہر ملک میں مشترک” تھا۔
ہفتے کی پریس کانفرنس کے دوران مومی نے مزید کہا تھا کہ تسکین بخش عورتوں کا معاملہ “پیچیدہ ہے چونکہ جنوبی کوریا کے مطابق صرف جاپان نے ہی عورتوں کو زبردستی بھرتی کیا”۔
2007 میں آبے کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بھی ان کے بیان نے سارے خطے میں طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ جاپان نے خواتین کو براہِ راست اور زبردستی جنسی غلامی پر مجبور کیا۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ کوریا، چین، فلپائن اور دوسرے ممالک سے قریباً دو لاکھ خواتین کو دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایشیا میں جاپانی فوج کے مقبوضہ علاقوں میں چکلوں میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
1993 میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھنے والے ایک بیان میں جاپانی حکومت کے ترجمان یوہئے کونو نے سابقہ تسکین بخش عورتوں سے معافی مانگی تھی اور انہیں تکلیف دینے میں جاپان کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔