ٹوکیو: وزیرِ اعظم شینزو آبے ایک سال قبل جب اقتدار میں آئے تھے، تب سے ین کی قدر میں قریباً پانچویں حصے کے برابر کمی ہو چکی ہے۔ اور اب یہ معیشت کے لیے بہترین فائدہ مند حالت میں ہے۔
کمپنیاں واپس منافع بخش حالت میں آ چکی ہیں۔ کرنسی کی قدر میں پانچ برس کے عرصے کی سب سے زیادہ کمی ہو چکی ہے۔ اس طرح برآمدات زیادہ مسابقت پذیر ہو چکی ہیں جبکہ درآمدات خصوصاً ایندھن، کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ اور درآمد کنندگان بھی نفع کما رہے ہیں۔
لیکن کیا ین کی قدر میں کمی ہوتی رہنی چاہیئے؟ زیادہ درآمدی قیمتوں کے مضمرات اور واشنگٹن و دیگر تجارتی شراکت دار ممالک کا غصہ کم قدر کرنسی کے فائدوں کے مقابلے میں بڑھ سکتا ہے۔
بی او جے کے ایک معیشت دان ناوبویاسو آتاگو آج کل جاپان سنٹر برائے معاشی تحقیق سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا، “میرا نہیں خیال کہ جاپان میں بہت سے لوگ ین کو 120 یا 130 ین فی ڈالر تک سستا کرنا چاہتے ہیں”۔
چین اور جنوبی کوریا دونوں جاپان کے بڑے تجارتی حریف ہیں اور کئی ایک مارکیٹوں مثلاً گاڑیوں اور الیکٹرونکس میں مسابقت پذیری کرتے ہیں۔ ان دونوں نے بھی حالیہ ہفتوں میں ین کی قدر میں کمی پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔