ٹوکیو: ہفتے کو ٹوکیو میں سینکڑوں افراد نے جاپان کے سرکاری وکلائے استغاثہ کے خلاف احتجاج کیا۔ استغاثہ نے فوکوشیما ایٹمی بحران پر الزامات واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک حکومتی کمیٹی اس حادثے کو “انسانی ہاتھوں کا نتیجہ” قرار دے چکی ہے لیکن قریباً تین برس گزرنے کے بعد بھی کسی کو سزا نہیں سنائی گئی۔
مارچ 2011 میں 9.0 شدت کا زلزلہ فوکوشیما ایٹمی پلانٹ سے آ ٹکرایا تھا، جس کے بعد سونامی سے کولنگ سسٹم غرق اور ری ایکٹر پگھل گئے۔ لیکن اس حادثے کے نتیجے میں خارج شدہ تابکاری کو باضابطہ طور پر کسی ہلاک شدہ کی موت کی وجہ قرار نہیں دیا گیا۔
قریباً 1500 متاثرین نے جاپانی حکومت اور پلانٹ آپریٹر ٹوکیو الیکٹرک پاور (ٹیپکو) کے خلاف 2012 میں فوجداری الزامات کے تحت مقدمہ درج کروایا تھا۔ ان لوگوں کے گھر اور فارم تباہ حال پلانٹ سے خارج شدہ تابکاری کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔
تاہم ستمبر میں سرکاری استغاثہ نے فیصلہ کیا کہ ان پر ایٹمی آفت کے سلسلے میں غفلت کے الزامات عائد نہ کیے جائیں۔
مذکورہ احتجاجیوں اور مہم چلانے والوں کا الزام ہے کہ سرکاری اہلکار اور ٹیپکو کے عہدیدار مارچ 2011 کے سونامی کے خلاف درکار اقدامات اٹھانے میں ناکام رہے۔
تاہم وکلائے استغاثہ نے ان سب کو استثنا دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیپکو اور سرکاری اہلکار اتنے بڑے زلزلے اور سونامی کی پیشن گوئی نہیں کر سکتے تھے۔ اور زلزلے کے بعد غیر متوقع ہنگامی صورتحال کے دوران ان کے ردعمل میں کوئی غلط بات نہیں تھی۔