سئیول: جنوبی کوریائی خاتون صدر پار گیون ہئے نے ہفتے کو خبردار کیا کہ اگر جاپان نے جنسی غلامی پر جاری کردہ معذرت نامے پر نظرِ ثانی کی تو اسے “اکیلے پن” کا سامنا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے 1919 میں ایک جاپان مخالف بغاوت کی برسی کے موقع پر تقریر کے دوران خبردار کیا۔ اس برسی کے موقع پر ہی سئیول میں “تسکین بخش خواتین” پر ایک نایاب نمائش کا اہتمام ہو رہا ہے۔ “تسکین بخش خواتین” کے خوشنما الفاظ ان خواتین کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جنہیں دوسری جنگِ عظیم میں جاپانی فوج کے چکلوں میں جسم فروشی پر مجبور کیا گیا۔
جاپانی وزیرِ اعظم شینزو آبے کی انتظامیہ 1995 میں تسکین بخش خواتین کے سلسلے میں جاری کردہ معذرت نامے پر نظرِ ثانی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ معاملہ اس کے دونوں پڑوسیوں کے درمیان فساد زدہ تعلقات کو مزید کشیدہ کر دے گا۔
تسکین بخش عورتوں کا سیاسی طور پر باردار موضوع علاقائی کشیدگی کا باعث بنا ہے۔ اس سلسلے میں جنوبی کوریا اور چین کہتے ہیں کہ جاپان کو دوسری جنگِ عظیم کے زمانے میں مقبوضہ ایشیا بھر میں عورتوں کو جنسی طور پر غلام بنانے جیسے فعل کو قبول کرنا چاہیئے۔
تسکین بخش خواتین پر نمائش قومی عجائب گھر برائے عصری تاریخ، سئیول میں جاری ہے۔ اس میں تسکین بخش خواتین کی حالتِ زار کی عکاسی کرنے والے کارٹون وغیرہ اور بچنے والوں کے فن پارے رکھے گئے ہیں۔