ٹوکیو: وزیرِ اعظم شینزو آبے نے جمعے کو کہا کہ ان کی حکومت 1993 کی تاریخی حیثیت کی حامل “تسکین بخش خواتین” کی معافی پر نظر ثانی نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ جنگی چکلوں کے نظام میں پھنس جانے والی خواتین کی تکلیف پر “گہرا دکھ” محسوس کرتے ہیں۔
باوقار تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دو لاکھ سے زیادہ خواتین کو جاپانی فوجیوں کی خدمت پر مجبور کیا گیا تھا۔ ان میں سے اکثریت کوریا سے تعلق رکھتی تھی تاہم چین، انڈونیشیا، فلپائن اور تائیوان سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شامل تھیں۔
وزارتِ امور ِ خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، انہوں نے ایک پارلیمانی کمیٹی کو بتایا۔ انہوں نے کہا، “تسکین بخش خواتین کو بے پایاں درد اور تکلیف میں سے گزرنا پڑا۔ ان کے معاملے پر مجھے گہرا دکھ ہوتا ہے۔ یہ احساس مجھ میں اور میرے پیش رؤں میں یکساں طور پر مشترک ہے”۔
1993 میں جاپان نے 16 کوریائی خواتین کے بیانات لے کر “پُر خلوص معذرت اور افسوس” کا اظہار کیا تھا اور تاریخی حقائق کو کھلے دل کے ساتھ قبول کرنے کا عہد کیا تھا۔
آبے دسمبر 2012 میں اقتدار میں آئے تھے۔ وہ جنوبی کوریا میں ایک غیر مقبول شخصیت ہیں اور انہوں نے صدر پارک گیون ہئے کے ساتھ ابھی تک سربراہ ملاقات نہیں کی۔ گیون ہئے نے جاپان کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے معذرت نامے پر نظرِ ثانی کی تو اسے “تنہائی” کا سامنا کرنا پڑے گا۔