ٹوکیو: جاپان کی حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) نے عدم تشدد کے حامی ملک کی خود پر عائد کردہ اسلحہ برآمد پابندیوں پر نظرِ ثانی کے منصوبے تیار کر لیے ہیں۔ ایک ایسا اقدام جو چین کو غصہ دلا سکتا ہے۔
نرم کردہ قوانین کا مطلب ہو گا کہ ٹوکیو اہم سمندری راستوں کے اطراف واقع ممالک کو اسلحہ مہیا کر سکے گا۔ اور وہ ممالک بحری قزاقی سے لڑنے میں مدد پائیں گے اور کم وسائل یافتہ جاپان کی مدد بھی کریں گے۔ جاپان ان ممالک سے معدنیات کی درآمد پر انحصار کرتا ہے۔
جاپانی اسلحہ ممکنہ طور پر انڈونیشیا اور جنوبی بحر چین کے گرد واقع دیگر اقوام مثلاً فلپائن کو بھی مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اس علاقے سے رکازی ایندھن کی فراہمی جاری رہتی ہے اور یہاں پر کچھ ممالک مثلاً فلپائن بیجنگ کے ساتھ علاقائی تنازعات میں بھی الجھے ہوئے ہیں۔
چین اور جاپان بھی مشرقی بحر چین میں جزائر کی ایک لڑی کی ملکیت پر تنازعے کا شکار ہیں۔ بیجنگ جنوبی بحرِ چین میں کئی دیگر ممالک کے ساتھ بھی تنازعات میں ملوث ہے اور جنوبی بحرِ چین کے قریباً تمام حصے پر دعویٰ کرتا ہے۔
1967 کی پابندی کے تحت جاپان کمیونسٹ ممالک، اقوامِ متحدہ کی اسلحہ پابندیوں کا شکار ممالک اور ممکنہ طور پر مسلح تنازعات میں ملوث ہونے والے ممالک کو اسلحہ نہیں بیچتا۔