ٹوکیو: جاپانی حکومت نے بدھ کو جاپانی وزیرِ اعظم شینزو آبے اور جنوبی کوریائی صدر پارک گیون ہئے کے درمیان پہلی سربراہ ملاقات کا خیرمقدم کیا اور ملاقات کو میل جول پیدا کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیا ۔تاہم سئیول نے اس پر سرد مہرانہ رویہ اختیار کیا۔
دی ہیگ میں ان مذاکرات کی میزبانی امریکی صدر باراک اوباما نے کی تھی۔ ان کی انتظامیہ دو بڑے ایشیائی اتحادیوں کے درمیان مسلسل چاند ماری پر مایوس سے مایوس تر ہوتی جا رہی ہے۔
جنوبی کوریائی میڈیا نے کہا کہ آبے نے ملاقات سے قبل تصویر کشی کے موقع پر کوریائی بولنے کی کوششیں کی لیکن صدر پارک اس سے متاثر نہ ہوئیں۔ میڈیا کے مطابق، ان کا اکلوتا جواب “پتھریلے چہرے کے ساتھ” سامنے دیکھتے رہنا تھا۔
ٹوکیو اور سئیول کے درمیان تعلقات کئی برسوں کی بدترین سطح پر ہیں۔ ان کو بدتر کرنے میں جاپان کے 1910-45 نوآبادیاتی تسلط سے منسلک جذبات انگیز تنازعات کا ہاتھ ہے۔ ان تنازعات میں خصوصاً جنوبی کوریائی “تسکین بخش خواتین” کو جنگی چکلوں میں بطور غلام استعمال کرنے کا معاملہ سرِ فہرست ہے۔
جنوبی کوریا میں حالیہ رائے شماریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاپانی لیڈر جنوبی کوریائیوں میں شمالی کوریا کے مطلق العنان حکمران کم جونگ اُن سے بھی زیادہ غیر مقبول ہیں۔