ٹوکیو: جمعرات کو ایک سزائے موت کا منتظر قیدی اپنی قیدِ تنہائی سے آزاد کیا گیا۔ خیال ہے کہ یہ قیدی کال کوٹھڑی میں سزائے موت کے انتظار میں سب سے طویل عرصہ گزار چکا ہے۔ اس کی بہن نے ہفتے کو بیان میں کہا کہ اسے علاج کے لیے چھ ماہ ہسپتال میں رہنے کی ضرورت ہے۔
وسطی جاپان میں شیزوؤکا کی ضلعی عدالت نے 1966 میں اس کے باس اور آدمی کے اہلخانہ کے قتل کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد 78 سالہ ایواؤ ہاکامادا ٹوکیو کی جیل سے آزاد ہوا۔ وہ ہلکا سا غیر مستحکم نظر آ رہا تھا اور اس کے ہمراہ اس کی بہن بھی تھی جو اس حوالے سے مہم چلا رہی ہے۔
ٹی بی ایس نے خبر دی، جمعے کو وہ ایک طبی جانچ پڑتال سے گزرا۔ تاہم اس کی 81 سالہ بہن ہیدیکو نے کہا کہ برسوں کی قید نے اس کے بھائی کو ذہنی اور جسمانی طور پر غیر مستحکم کر دیا ہے۔
وہ اپنے اعترافِ جرم سے مکر گیا تھا لیکن کوئی فائدہ نہ پا سکا۔ 1980 میں عدالتِ عظمی نے اس کی سزائے موت کی تصدیق کر دی تھی۔
ہاکامادا کے کیس میں استغاثہ اور عدالتوں نے خون آلود کپڑوں کو کلیدی ثبوت کے طور پر استعمال کیا تھا۔ یہ ثبوت جرم کے ایک برس بعد سامنے آیا تھا جس کے بعد اسے حراست میں لیا گیا۔