14مارچ 2014 ء بروز جمعہ کو جاپان کی پاک ایسو سی ایشن (نداپینل) کا تحلیل ہونا لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہورہا یا کچھ بے کار لوگوں کی لاٹری نکل آئی۔
یہ کوئی انڈر گراونڈ سازش نہیں تھی کھلے اجلاس میں انتہائی اہم قدم تھا جو کہ باہم صلہ و مشوروں ،بحث و مباحثے کے بعد اُٹھایا گیا۔ توچگی کین اویاما سٹی میں مسلم لیگ (ن) کے مشاہد اللہ خاں صاحب کے اعزاز میں رکھے گئے ایک جلسہ کے دوران میری ملاقات جب محترم الطاف غفار سابق جنرل سیکر یٹری پاکستان ایسو سی ایشن (ندا پینل ) سے ہوئی تو دوران گفتگو ایسو سی ایشن کے الیکشن وغیرہ پر کسی دوست نے کچھ کہا تو میں نے الطاف بھائی سے کہا تھا کہ ہمیں کسی قسم کی ایسو سی ایشن نہیں چاہیے پہلے ہی بہت ایسو سی ایشن کے نام پر فساد ہوچکے اس پر الطاف غفار صاحب مسکر کر ٹال گئے تھے۔
اس کے بعد تقریب کے اختتام پر ایک مقامی ریسٹورنٹ میں ہونے والی نشست میں جس میں محبوب نجمی، اختر شیخ، رحیم آرائیں ،شاہد چوہدری، رئیس صدیقی، الطاف غفار،طیب خاں، رانا ابرار، میاں اکرم، اور میں خود شریک تھے دورانِ گفتگو جب ایسو سی ایشن کا ذکر آیا تو راقم نے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ بھائی ہمیں (عوام کو) معاف کردیں۔پہلے ہی اس ایسو سی ایشن کے نام پر بہت دنگے فساد ہوچکے ہیں دوست دوست نہ رہے اب اس ایسو سی ایشن کے نام پر مزید فساد نہیں چاہتے۔ ۔
لیکن ایسو سی ایشن کی تقدیر کے فیصلے کے لیے میٹنگ کال کی گئی۔ شاہد چوہدری صاحب کی طرف سے بھی اور رحیم آرائیں صاحب کی طرف سے ایسو سی ایشن کی پہلے ہونے والی میٹنگ میں شامل ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔ لیکن مجھے اس میں کوئی د لچسپی نہیں تھی دوسرے فکر معاش کی وجہ سے حاضر نہ ہو سکا۔ دوسری مرتبہ 14 مارچ بروز جمعہ کو ہونے والی میٹنگ کے لیے رحیم آرائیں صاحب نے کہا کہ میں میٹنگ میں شریک ہوں اور شاہد چوہدری صاحب کا بھی یہی کہنا تھا کہ آپ کا جو بھی موقف ہے وہ سب کے سامنے بیان کیا جائے۔ میٹنگ میں جا کر ایسا لگا کہ جیسے ہم سمیت کچھ اور بھی دوست احباب بن بلائے مہمان ہوں۔ میزبانوں نے برملا کہا کہ یہ دوسری میٹنگ تو پہلے ہونے والی میٹنگ کا تسلسل ہے اور اس کے نامزد اراکین جن کی تعداد ایک یا ڈیڑھ درجن ہے ۔ ان کے لیے ہی ہے بلکہ ایجنڈا بھی طے پاچکا ہے۔ لیکن ہم سمیت نئے آنے والے دوستوں کی موجودگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تقریب کی پوزیشن تبدیل کردی گئی اور کہا گیا کہ پاکستانی برادری کے مفاد میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس بحث و مباحثہ میں شریک ہوں تاکہ سب کی رائے سے فیصلے کیئے جائیں۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہو ں کہ میرا موقف شروع سے یہی تھا کہ فتنہ فسادپھیلانے والی ان ایسو سی ایشن نامی بیماریوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے اس قسم کی تمام بیماریوں کو ختم ہوجانا چاہیے غیر ذمہ دار نااہل لوگوں ،مذہبی مریضوں کے طفیل عبادت گاہیں تک بندش اور سر پھٹول کا شکار ہیں، خلیفہ گیر طبقہ کے اعلی عہدیداروں کی آپس میں اتحاد و یکجہتی کا یہ عالم ہے کہ جاپانی عدالت میں ایک دوسرے کے خلاف کیس رجسٹر ہو چکے ہیں۔
میٹنگ میں شریک بزرگوں ،دوستوں نے جن میں اکثریت سیاسی ، سماجی ،مذہبی شخصیات تھیں انہوں نے گفتگو کا آغاز ہی اس طرح کیا کہ میرے موقف کو تقویت مل گئی۔ پاکستان ایسو سی ایشن (ندا پینل ) کے جنرل سیکر یٹری کے مقابلے میں سیاسی ، سماجی ،مذہبی شخصیات کے درمیان کانٹے کا بحث و مباحثہ ہوا ۔ الطاف غفار صاحب اپنے ساتھ آئے ہوئے گونگے ہم نواوں کی موجودگی میں اپنے موقف کا بھرپور دفاع کرتے رہے۔ الطاف غفار صاحب کے ہم نواوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود محفل میں ان کی حیثیت تماشائیوں سے زیادہ اور کچھ نہیں تھی۔
` ` تم بولتے اگر تو تمہاری ندا کے ساتھ ۔۔۔۔ بستی کے سارے کوچہ و بازار بولتے ‘‘‘
اب خلوتوں میں شور مچانے سے فائدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا حوصلہ تو بر سرِ دربار بولتے
دلائل کی زبان میں کی گئی بحث کا منطقی انجام یہ ہوا کہ کثرت رائے سے پاکستان ایسو سی ایشن (ندا پینل ) تحلیل کردی گئی۔ تحلیل کرنے کے حق میں ہاتھ اُٹھانے والوں میں محترم الطاف غفار بھی شامل تھے۔
مجھے الطاف غفار بھائی سمیت کیس کی شہریت وغیرہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے میرا اعتراض یہ تھا کہ ان کے اپنے ہی بنائے ہوئے اصول کے مطابق جب الیکشن کمیشن الیکشن کروانے کے بعد ختم ہوگیا، پاکستانی شہریت چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کی شہرت اپنانے والا کوئی شخص ایسوسی ایشن کا عہدیدار نہیں بن سکتا۔ اپنے ہی بنوائے گئے قانون کی جو لوگ دھجیاں اُڑائیں( جس کی کوئی شق میٹنگ میں رحیم آرائیں بھائی نے پڑھ کر بھی سنائی تھی) ان پر پھر ہم کیسے اعتماد کریں۔ پاکستان ایسو سی ایشن (ندا پینل ) کے تحلیل ہونے کے باوجود محترم الطاف غفار سمیت کسی بھی عہدیدار کی طرف سے کوئی بھی غیر ذمہ دار انہ بیان یا کوئی بھی غیر ذمہ دارانہ حرکات نہیں ہوئی اس کے لیے ندا پینل کے تمام ذمہ دار عہدیدار و کارکنان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ہم عوام ہونے کی حیثیت سے آپ سب کے شکر گذار ہیں کہ آپ لوگوں نے جس جمہوری اور بالغ النظری کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے کوئی نیا فتنہ پاکستانی برادری میں نہیں ہوا۔اللہ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین ) ایسو سی ایشن کو دوبارہ سرگرم کرنے کے لیے جن لوگوں نے کوشش کی ان میں رحیم آرائیں، چوہدری شاہد ، ذوالفقار وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
لیکن اب پاک ایسو سی ایشن (ندا پینل ) کے تحلیل ہونے کے بعد نئی ایڈہاک نامی کمیٹی کے کچھ اراکین کی پھرتیاں دیکھ کر ایک نئی سازش کی بو آرہی ہے۔ ایڈہاک کمیٹی کے کچھ اراکین کا طریقہ کار ابتدائی مراحل میں ہی مشکوک پُر اسرار سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ اس ایڈہاک کمیٹی کے معزز اراکین کی اعلی کار کر دگی یہ ہے کہ ان میں اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ یہ بروز اتوار بتاریخ 30 مارچ کو اپنی نئی نویلی پیلوٹھی کی پہلی ہونے والی میٹنگ کی کم از کم دو چار دن پہلے پیشگی اطلاع ہی کسی نیٹ اخبار پر چھا پ کر ثوابِ دارین حاصل کر لیتے۔ دوسری غلطی یہ کہ جس طرح دوسروں کی تقریب یا پارٹی کو ہائی جیک کرنے ان کی اصلیت عوام الناس کو دکھانے کے لیے لائیو ٹی وی شو کیا جاتا ہے 30مارچ کو عوام الناس کے مفاد میں کئے جانے والے اس پتلی تماشے کا کوئی ایسا دور درشن عوام الناس کی نظر سے نہیں گذرا ۔ 30 مارچ کی پیلوٹھی کی میٹنگ جس میں پہلے سے منتخب کئے گئے ممبران کا کورم پورا نہیں تھا ، دانستہ یا غیر دانستہ عوامی رابطوں میں فقدان کی وجہ سے کیمونٹی کی عدم دلچسپی کے باعث 30 مارچ کی ایڈہاک کمیٹی کی میٹنگ سب سے ناکام میٹنگ قرار پائی اور ایڈہاک کمیٹی کے ذمہ دار اراکین کی کار کر دگی اور دعووں کی قلعی کھل گئی ہے ۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ اس میں کچھ معزز اراکین کسی پُر اسرار سازش کے تانے بانے بن رہے ہیں۔ ہم عوام ہونے کی حیثیت سے ایڈہاک نامی کمیٹی کے جملہ معزز اراکین کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کسی خوش فہمی میں نہ رہنا یہ دوہزار چودہ ہے ‘‘ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے “ اس کمیٹی کو بنانے کا مقصد جو بتایا گیا تھا وہ یہ تھا کہ یہ کمیٹی پاکستان برادری کے لیے یہ طے کرنے کے لیے بنوائی گئی ہے کہ آیا ایسو سی ایشن کو دوبارہ بنوایا جائے یا اسے مکمل طور پر ختم کیا جائے ۔ کسی ہنگامی صورت میں یا کسی پاکستانی قومی دن یا تہوار کے لیے ہونے والے جلسے جلوس کے لیے پاکستانیوں کو ایک جگہ اکھٹا کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل اخیتار کی جانا چاہیے ۔ اس سلسلے کی ہونے والی پہلی میٹنگ میں کئی اراکین غیر حاضر تھے ابھی بہت سے پریفیکچر ز سے ذمہ دار افراد کی شرکت اور ان کے مفید مشورے لینا باقی ہے ۔ ایڈہاک کمیٹی کا جس کا ابھی کوئی سر پیر طے ہی نہیں ہوا اس کے کچھ اراکین نے کسی بھی نیٹ اخبار پر پاکستانی برادری کو پیشگی مطلع کیے بغیر اپنے کئی ممبران کی عدم موجودگی کے باوجود اچانک کیوں یہ ناکام اجلاس طلب کیا۔۔۔۔۔؟ یہ لوگ کیوں پاکستانی برادری پر اپنے خود ساختہ فیصلے مسلط کرنے لگے، خود ساختہ عہدے بنا بنا کر بانٹنے لگے اور پھر یہ توقع رکھتے ہیں کہ عوام خاموش تماشائی بنی رہےایڈہاک کمیٹی کے تمام حاضر اراکین جو کہ 30 مارچ کو اس سازش کے تانے بانے بن رہے تھے وہ اپنی اس غیر ذمہ دارانہ شرمناک حرکت پرپاکستانی برادری سے پیروں میں گر کر معافی مانگیں۔ ایڈہاک کمیٹی پاکستانی برادری کے مفاد کے لیے بنوائی گئی ہے نہ کہ جاپان میں مسلم لیگ (ن) کی کسی بغل بچہ تنظیم کا کر دار ادا کرنے کے لیے ۔ اس میں مسلم لیگ کے صرف ایک گروپ کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کیا جائے۔ اور دوسرے گروپوں کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے۔ یہ ایڈہاک کمیٹی خالصتا پاکستانی برادری سے رابطہ کرکے ان کے مشوروں کے ذریعے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے بنوائی گئی تھی ( جس میں آپ لوگ ناکام ثابت ہوئے ) آپ لوگ نہ جانے کس خوش فہمی میں اپنے آپ کو پاکستانی برادری کے کنگ میکر سمجھنے لگے ہیں۔
‘‘ اپنی حدوں میں رہیے کہ رہ جائے آبرو اوپر جو دیکھنا ہو تو پگڑی سنبھالیے “
عوام پر مسلط ہونے سے پہلے عوام کی اکثریتی مشوروں کا احترم تم سب پر لازم ہے ورنہ یہ پتلی تماشہ جہاں سے شروع ہوا ہے انشاء اللہ وہاں سے کافو ر بھی ہوجائے گا۔ ایڈہاک کمیٹی کے معزز اراکین یہ نہ بھولیں کہ جاپان میں سیاسی ،سماجی ،مذہبی شخصیات کی اکثریت عوام کے آزمائے ہوئے ہیں۔ اور ان کے کارناموں اور اعلی ٰ خدمات کی فہرستیں عوام الناس کو ازبر یاد ہیں ‘‘ یہ قصہ پھر سہی کہ کس کی وجہ سے کیمونٹی کی فضا سوگوار آج بھی ہے “ ۔ جاپان کے بہت سے پریفیچکر ہیں جہاں پر پاکستانیوں کی اکثریت رہتی ہے اب اگر میٹنگ یا مشورہ کرنا ہی ہے اور واقعی پاکستانیوں کے مفاد میں کچھ کرنا ہے تو پھر پاکستانیوں کے اکثریتی رہائشی علاقوں میں کی جائے ۔ اور جن موصوف کا نام نامی اگلے اجلاس کے صدر شدر کے لیے لیا جارہا ہے ان موصوف سے بھی عرض ہے کہ آئندہ میٹنگ میں آتے ہوئے اپنی (ریریک شو ) تعارفی تفصیل لانا نہ بھولیں اب آپ جیسوں کا لگتا ہے عوام کو انٹرویو لینا ہی پڑے گا۔ یہ بات دماغ کے ہر گوشے میں بٹھالیں کہ عوام الناس کی اکثریت فیصلہ کریں گے کہ کون ہم ( عوام ) پر مسلط ہو نہ کہ آپ کے ہم نواوں کے قبیلے کی رودالیاں ۔ پاکستانی برادری سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس قسم کے فتنوں پر نظر رکھیں ۔ اور ان کے سدباب کے لیے کوشش کریں۔ اگر کچھ خوش فہم لوگوں نے اپنی من مانی کی کوشش کی تو عوام بھی مجبور ہوجائیں گے کہ وہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنی مقدور بھر کوشش سے آپ کا دم دما دم مست قلندر کریں۔