ٹوکیو: ایک نوجوان خاتون محقق ان دعوؤں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں کہ خلیاتِ ساق پر ان کی بے نظیر تحقیق میں جعلسازی کی گئی، یہ بات ان کے وکیل نے منگل کو بتائی۔ یاد رہے کہ جاپان کی مردوں کے غلبے والے سائنسی حلقے اس معاملے پر ایکا کر رہے ہیں۔
30 سالہ ہاروکو اوکوباتا کو پیر کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ان کے وکیل ہیدیو میکی نے رپورٹروں کو بتایا، ان کی “دماغی اور جسمانی حالت غیر مستحکم” تھی۔
اس نوجوان جاپانی محققہ کی نایاب کامیابی کو میگزینوں اور ٹیلی وژن شوز میں بڑے پیمانے پر سراہا گیا تھا۔ ورنہ تحقیق کا شعبہ عموماً درمیانی عمر کے مردوں کے غلبے میں رہتا ہے۔
تاہم ان کی ٹیم کی تحقیق سامنے آنے کے چند ہی ہفتوں بعد ان کے طریقہ تحقیق پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے۔ دیگر سائنسدان ان کے تجربات کو دوہرانے میں ناکام رہے اور دعوی کیا گیا کہ عوامی طور پر پیش کی گئی تصاویر میں جعلسازی کی گئی تھی۔
معتبر ادارے ریکین انسٹیٹیوٹ نے اس تحقیق کو اسپانسر کیا تھا۔ اس نے تحقیقی مقالے کی معاونت کے لیے استعمال شدہ ڈیٹا کی معتبریت جانچنے کے لیے ایک تفتیش شروع کر دی۔ یہ مقالہ اعلی شہرت کے حامل سائنسی جریدے نیچر میں چھپا تھا۔
ریکن انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ریوجی نویوری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ “ایک انضباطی کمیٹی میں متعلقہ کاروائی کے بعد متعلقہ لوگوں کی سختی سے تادیب کریں گے”۔ نویوری 2001 میں کیمیا کا نوبل انعام جیت چکے ہیں۔