ٹوکیو: ڈیٹا میں جعلسازی کا الزام سہنے والی ایک نوجوان محققہ نے بدھ کو جاپانی ٹیلی وژن پر اپنی تحقیق میں “غلطیوں” پر پرنم آنکھوں سے لائیو معذرت کی۔ تاہم اس نے زور دیا کہ خلیاتِ ساق پر اس کے بے نظیر نتائج درست تھے۔
30 سالہ ہاروکو اوبوکاتا نے اپنے طریقہ تحقیق میں غلطیوں کا ذمہ دار اپنی کم عمری اور ناتجربہ کاری کو ٹھہرایا۔ تاہم اس نے کہا کہ وہ بنیادی اکائی کی حیثیت رکھنے والے یہ خلیات تیار کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ رحمِ مادر میں حمل ٹھہرنے کے بعد اولین طور پر وجود میں آنے والے خلیات دراصل خلیاتِ ساق ہوتے ہیں۔ یہ خلیات بعد ازاں دیگر خصوصی قسم کے خلیات مثلاً دماغ، جگر، دل یا گردوں کے خلیات یا دوسرے لفظوں میں ان اعضاء کی تشکیل کرتے ہیں۔
واضح طور پر متزلزل اوبوکاتا نے ایک پریس کانفرنس کو بتایا، “میں دل کی گہرائیوں سے اپنے ساتھی مصنفین اور بہت سے دیگر لوگوں سے معذرت کرتی ہوں۔ جنہیں میری ناکافی کوششوں، ادھوری تیاری اور ہنرمندی کی کمی سے تکلیف اٹھانی پڑی”۔
خلیاتِ ساق کو مصنوعی طور پر بنانے کی ایک تکنیک کا نام ‘بذریعہ محرک کثیر جہتی اثر آفرینی’ ہے۔ یہ تکنیک کم ترین لاگت پر بافتوں کی پیوند کاری کے لیے بنیادی مواد کی تیار سپلائی مہیا کر سکتی ہے۔چنانچہ کسی مریض کے خلیات لے کر انہیں خلیاتِ ساق میں بدلا جائے گا اور پھر اس کا کوئی بھی خراب عضو اگا کر اس کے جسم میں پیوند کیا جا سکے گا۔ خلیاتِ ساق مصنوعی طور پر تیار کرنے کے حوالے سے اس تحقیق کو بریک تھرو قرار دے کر خوش آمدید کہا گیا تھا۔
تاہم موقر جریدے نیچر میں اس کا مقالہ چھپنے کے چند ہی ہفتوں بعد سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔ اور ساتھی سائنسدانوں نے کہنا شروع کر دیا کہ وہ اس کے نتائج کو حاصل نہیں کر پائے۔