جاپان میں مقیم پاکستانی برادری میں ہمارے مخصو ص جلیل القدر صاحبان کی وجہ سے کسی نہ کسی حوالے سے ہمیشہ رونق لگی رہتی ہے۔ اب اس رونق کو اگر کوئی من چلا امن بھائی چارگی یا وغیرہ وغیرہ سے تعبیر کرلے تو اور بات ہے ورنہ تو یہ رونق بنام اتحاد ایک عظیم فتنہ فساد کا شاخسانہ ہی ہوتا ہے. سیاسی ،سماجی، صحافی ،مذہبی بیانات و خطابات سن کر ،پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے محترم سیاسی ، سماجی ، صحافی ، مذہبی قد آور شخصیات ایک دوسرے کے کپڑے اتارے بغیر گھر واپس نہیں جائیں گے . اور کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کو چومنے چاٹنے میں ایک مخلوق کو بھی پیچھے چھو ڑ جائیں گے . پچھلے چند ماہ سے اکابرین جاپان عوامی رابطوں کے فقدان کے باوجودایڈہاک کمیٹی کمیٹی کھیل رہے ہیں ہر طرف بظاہر سکون ہی نظر آرہا ہے ۔جاپان کے کسی نیٹ اخبار میں کچھ تصاویر نظر سے گذریں تو دیکھا کہ بادشاہ گروں کا غول کا غول آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا ، تو کہیں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے اظہار یکجہتی کرتے نظر آرہے تھے ۔ ہمارے رہبر و رہنماوں کی مخصو ص سرگرمیاں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یا تو سارا عالم انہوں نے باتوں سے فتح کرنے کی ٹھانی ہے یا دعاوں سے۔ عوام ہونے کی حیثیت سے چھوٹا منہ اور بات بڑی کے اے اعلی حضرات قبلہ معزز صاحبان آپ اتنا فساد کرتے کیوں ہو کہ نوبت ہمیشہ اظہار یکجہتی تک چلی آتی ہے . معزز سیاسی ، سماجی ،صحافی ، مذہبی شخصیات کے اتحاد کو دیکھ کر ہم جیسے کم زور ، کم علم عوام کو یہ اطمینان ضرور ہو جاتا ہے کہ یہ مقدس مخلوقیں شی با راکو ( کچھ مدت تک ) ہمارے پاس نہیں آئیں گے. اس لیے بے فکر ہو کر ہم عوام اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں ۔ گذشتہ چند سالوں میں مختلف نیٹ اخباروں کی لڑائیوں سے کچھ شہرت کے (سیاسی، سماجی، صحافی ، مذہبی )شوقینوں کی لاٹری نکل آئی تھی شہر کا شہر مذہبی اسکالر ، علامہ، مفتی ، بی بی مشورہ ، تجزیہ نگار، کالم نگار، شاعر ، مذہبی گلوکار،موسیقار ،ہدایت کار ، صدر ، جنرل سیکر ٹری وغیرہ وغیرہ بنا گھوم رہا تھا. جس کو دیکھو اپنے اپنے ویب ماسٹر ہاتھوں میں چھالے کی طرح لیے پھر رہا تھا، گروپ بندیوں سے نفرت کے باوجود اکثریت گروپ بازیوں میں ہی مشغول نظر آ رہی تھی۔کیا سیاسی ، کیا سماجی ، کیا مذہبی جس کا بس چلا اس گروپ بازی میں بڑھ چڑھ کا حصہ لے رہا تھا . چڑیا کے دل اور قد کاٹھ والے بھی چونچ میں فساد لیے موقع کے منتظر نظر آئے۔. کس کی پگڑی کس کا سر ….؟ کون دھیان رکھتا بس ایک رسم تھی جو ادا کی جارہی تھی. وہ گھمسان کا رن پڑا کہ الا مان الحفیظ . . پھر وہی ہوا کہ ‘ مکافات ِ عمل کا دور شروع ہوا اپنے اپنے سیاسی ، سماجی ، بلیک میلنگ والی صحافت اور مخصوص مذہبی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے جو کچھ بویا گیا تھا جب اس کے کاٹنے کا وقت آیا تو سفارت خانے میں روتے ہوئے دہائیاں دی گئیں،تھانے میں شکایات درج کروائیں گئیں .انجام کار ہر ایک کی حصے میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہ آیا.کسی کسی کو مالی فوائد یا شہرتی برفی ضرور مل گئی ہوگی. لیکن جس طرھ مینگنیاں ڈال ڈال کر دی گئیں وہ بھی جاپان کی تاریخ میں برسوں یاد رکھا جائے گا. جاپان میں نیٹ اخباروں کی آپس کی لڑائیوں سے سیاسی ،سماجی شخصیات کومینگنیاںملی شہرت کے سوا کچھ حا صل ہوا ہو تو معلوم نہیں لیکن مذہبی جغادریوں نے اس جنگ سے خوب بوریاں بھر بھر کر فائدہ اُٹھایا. کسی نہ کسی ذرائع سے حا صل ہونے والی دینی کتابوں کی نقل کر کرکے جعلی مذہبی اسکالر وجود میں آگئے ، اپنے اپنے پسندیدہ نظریہ کی عبادت گاہیں تعمیر ہونے لگیں ،لکھنے ،بولنے ،تجزیہ کرنے والے لوگ آپس میں دست و گریباں تھے . اس لیے اس عظیم فتنہ کو محسوس نہ کر سکے .وہی لوگ جو سائتاما پریفکچر کھاسکابے سٹی ایچی نواری میں ہر مسلک سے بالا تر ہوکر ایک دوسرے کے کاندھے سے کاندھا ملا کر نماز پڑھتے تھے اس اتحاد یکجہتی ، رواداری کا ان مفاد پرست موقع پرست ملا مافیا نے اپنے اپنے دفتر بنام مسجد کھول کر مذہبی روداری، اتحاد یکجہتی کا شیرازہ بکھیر دیا۔۔ اپنے اپنے من پسند مذہبی گلوکار و فنکار بلوائے گئے ، جن کے آنے یا نہ آنے سے نہ پہلے کوئی فرق پڑتا تھا اور نہ اب کوئی فرق پڑتا ہے۔ ان کے آنے اور جانے کے اخراجات ، اور وقت کو مدنظر رکھ کر ان کی جاپان میں آمد سے کیا مثبت اثرات مرتب ہوئے ، اور نہ آنے سے کیا نقصان ہوا فرق آپ خود تلاش کریں انشاء اللہ نتیجہ صفر ہی نکلے گا۔ کئی کئی گھنٹوں پر مشتمل پرگرامز میں سوائے زبانی لن ترانی ،مخصوص رٹی رٹائی باتوں، اوسر خوش الحانی کے جوہر کے علاوہ رکھا کیا تھا۔۔۔؟ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ عبادت گاہیں بنوا کر ان میں اگر جاپان میں مقیم کوئی تھوڑی بہت مذہبی معلومات رکھنے والے ساتھیوں کو اس کی ذمہ داریاں دے دی جاتیں تو بھی شائد مساجد میں تالا لگنا اور ایک دوسرے پر عدالت میں کیس تھوپنے سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن شومئ قسمت کہ پاکستان سے وہ صاحبان بلوائے گئے جن کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی قابلیت مخصوص حلیوں ،مخصوص حرکات و سکنات ،اور سال کی بارہ رٹی ہوئی تقاریر سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ یہ برگزیدہ جہاندیدہ لوگ جو کچھ اپنی گلی محلے ، قصبہ، شہر میں سے سیکھ کر آتے ہیں وہی ماحول جاپان میں بھی بنانا شروع کر دیتے ہیں۔.بلوائے گئے علماء اکرام کی پر مغز تقاریر سن کر ایسالگتا ہے کہ وہ ہمیں کئی ہزار میل کا سفر اور سوالیہ اخراجات کر کے یہ بتانے کے لیے تشریف لائے ہیں کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے ، حضر ت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں، اور قرآن اللہ کی آخری کتاب ،آخر میں سارے بھائی بند پرتکلف ضیافت کے بعد اپنے اپنے گھر جائیں۔ان مہمان علماء صاحبان کا ایسا سوچنا یا اپنی تقاریرمیں یہ اثر چھوڑ دینا کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں کیوں کہ جس طرح مملکت خدا داد میں شہر کا شہر مسلمان بنا پھر رہا ہے .جہاں اپنے نظریاتی حدودکے بعد اور خا ص طور پر جدید سہولیات سے مالا مال یورپی ، مغربی ممالک یا وہ ملک جہاں کوئی مسلمان حکمران مسلط نہیں وہاں کا ہر شخص کم علم،ابوجہل ، راہ رست سےبھٹکا ہوا، ہی دیکھائی دیتا ہے اس لیے ان مذہبی سفاری پارک کی مخلوقوں پر بزعم مذہب یہ لازم ہے کہ یہ تیڑے میڑھے( جعلی سفری دستاویزات یا دوسرے دونمبر طریقے )، راستوں سے ان جدید ممالک میں داخل ہونے کے لیے ویزہ حاصل کریں اور پھر تیڑھے راستے سے آکر انہیں سیدھا راستہ دکھائیں ۔دنیا کی جدید ترین سہولیات سے مالامال فوری انصاف کی دستیابی والے پر امن ممالک میں پہونچ کرہم انہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہو۔ برددباری، رواداری، فوری انصاف ،امن ،مساوات کا عظیم سبق ہم انھیں سنانا چاہتے ہیں جو کہ پہلے ہی ہمارے بغیر سکھ و چین کی نیند سوتے ہیں ۔ جنھیں ہمارے تمام رٹی رٹائی باتوں اور ہر موسم کی بارہ تقاریر کے بغیر بھی حقوق انسانیت کے طریقے ازبر یاد ہیں اور دنیاوی لین دین میں ، قول و فعل میں کمال حاصل ہے ۔ ہم جیسے لوگ ان مہذب ممالک کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہو آو ہم تمہیں بتائیں کہ یہ دنیا کیسے جنت نظیر ہو سکتی ہے۔ اور جب تک کہ یہ پر امن ، اعلی تعلیم یافتہ معاشرہ ،ہمارے طرح کھانے پینے کی چیزوں میں زہرآلودہ ملاوٹ کرنے ، جعلی دوائیں بنانے ،قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے مر نہیں جاتے ، خود کش بمبار بننے پر راضی نہیں ہو جاتے ہم پر لازم ہے کہ ہم میں سے ہر اک شخص انھیں سیدھی اور سچی راہ پر لانے کے لیے کوشش کرے۔ ٗ ٗ شرم مگر ہم کو نہیں آتی۔ٗٗ
نیٹ اخباروں کے حوالوں سے عارضی یکجہتی کے علمبردار اکابرین کی مخصو ص تشویش پر ( وہ بھی جب اپنی دم پر پاوں آجائے ) اور اس طرح بے دھنگے انداز مین ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے کھڑے ہونا دیکھ کر جو پہلا جملہ اپن کی کھوپڑی میں آیا وہ یہ تھا کہ ‘‘ جاپان کے کھوائی سو تاچی “ یہ عظیم حادثاتی عارضی اتحاد۔۔۔۔۔۔(جاری ہے )