جاپان کے ٹیلی ویژن پر سمورائی دور مبارک کے بہت سے قسط وار ڈرامے دکھائے جا تے ہیں جن میں بادشاہ بھیس بدل کر رعایا کے حالات معلوم کر تے ہیں۔
ان میں ایک سیریز ” میتو کومون “” کے نام سے ہے جس میں ایباراکی پریفکچر کے بادشاہ کے والد بزرگوار سلطنت کی تمام ذمہ داریاں اپنے بیٹے کو دے کر ۔
اپنے چند حواریوں کے ساتھ ملک کے مختلف علاقوں کے دورے پر نکل کر رعایا کا حال معلوم کرتے ہیں۔ حسب ضرورت وہ عوام کی نہ صرف مدد کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات مظلوم عوام کو شر پسندوں سے بچانے کے لیے انہیں شرپسند غنڈہ عناصر سے لڑائی بھی کرنی پڑتی ہے۔ دوران لڑائی جب جنگ اپنی انتہا پر پہونچنے والی ہوتی ہے تو بزرگ بادشاہ ( سابقہ) کے حواری اپنی مخصوص جیب سے ایک مخصوص ڈبیا نکال کر دیکھا تے ہیں جس کے اندر بادشاہ کے والد بزرگوار کی دوائی اور اوہر بادشاہ کا شاہی نشان ہوتا ہے۔ بادشاہ کے والد بزرگوار کے حواری وہ مخصوص نشان دیکھا کر کہتے ہیں۔ “شیزمارے شیزمارے “” ٹہرجاو، رک جاو، باز آجاو، خاموش ہوجاو۔ “کونو مونو مے نی ہائی را نائی نو کا ” یہ نشان تم کو نظر نہیں آرہا، تم اس نشان کو نہیں پہچانتے۔ اس ڈبیا پر بنے نشان کا دیکھنا تھا کہ ہر خاص و عام ٹھٹک جاتے ہیں، وہ شرپسند جو کچھ دیر پہلے تک خون کے پیاسے ہورے تھے وہ بھی اس مقدس شاہی نشان کو دیکھ کر باادب دوزانوں ہوکر ادبی سجدے میں گر جاتے ہیں۔ بادشاہ کے والد بزرگوار جو کہ خود بھی بادشاہ رہے ہیں۔ ان کے بہ نفس و نفیس وہاں موجود ہونے کے باوجود کوئی انھیں نہیں پہچان رہاہوتا ہے لیکن مقدس نشان سے ہر ایک واقف ہے ۔ان کے پاس سمورائی دور میں بھی اس نشان کی تصدیق کا کوئی نہ کوئی پیمانہ ضرور ہوگا۔ جیسے کہ ہمارے پاس ہے کہ ‘ آیتوں پر بھی اندھے اور بہرے ہوکر نہیں گرتے ” لیکن ہماری مذہبی مافیا کی شوق خلیفہ گیری ،مریدان کی تعداد میں بے تحاشہ بے ہنگم اضافے اور ہر خاص و عام پر حکم چلانے کی خواہش، ریاکارانہ اطوار، اور زبانی کلامی فتوحات کے رسیا ان سیاسی ،سماجی مذہبی ریوڑوں کی اوٹ پٹانگ حرکتوں نے اتنی جاہلیت کی دھول اڑائی کہ سامنے کی چیز اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔آج بھی بے وقت کے بے ہنگم شور میں کس کو فرصت ہے کہ وہ تصدیق کر سکیں کہ کس کا نشان اصلی ہے کس کا نقلی۔ بس عقیدت کی عینک اور تقلید کی چھڑی تھی جو صدیوں سے سہارا بنی رہی۔ صدیوں سے ” شیز مارے شیز مارے ” کی صداوں نے ہمیں گونگا بہرہ،اور اندھا بنا دیا ہے ۔ بچپن میں ہمیں جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں بہت مزا آتا تھا خاص طور پر جمعہ کی نماز کے تو ہم منتظر رہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ہم بچپن سے ہی نماز کے رسیا تھے ۔ بلکہ اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ جب جمعہ کی نماز کے بعد سب امام صاحب کے ساتھ گھیرا ڈال کر کھڑے ہوجاتے اور یک زبان ہوکر پڑھتے ” یانبی سلام علیکٰ صلوٰۃ اللہ علیکٰ یاحبیب سلام علیکٰ ۔ مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام۔
اس کے بعد چھوٹے سے کاغذ کے خاکی لفافے میں نکتی دانے ، یا بالو شاہی دی جاتی ۔ یا نبی سلام علیکٰ ” پڑھنے کے لیے کون کھڑا ہوتا ہے کون چپکے سے باہر نکل جاتا ہے ۔ کس کی ریش مبارک لمبی ہے کس کے پائنچے ٹخنوں سے اونچے ہیں کس کے نیچے۔ کسی کو کسی سے غرض نہیں تھی ۔ سب “” مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام ٗ یا نبی سلام علیکٰ صلوٰۃ اللہ علیکٰ حبیب سلام علیکٰ کے سائے میں پر امن بڑھتے چلے جارہے تھے جشن عید میلاد النبی اور یا حسین یا حسین کے ماتمی جلوس ، تازیے ،شب برات ، پورے احترام کے ساتھ منائی جاتی تھیں۔ تازیوں کے ساتھ ڈھول تاشے، پٹے بازی کے مقابلے، اور ماتمی جلوس چھوٹی موٹی تو تکار کے ساتھ جاری تھے۔ شب برات میں مختلف عبادتوں کے ساتھ، منہ میں مٹی کا تیل ڈال کر ہاتھ میں پکڑی ہوئی مشعل پر پھونک مارنا ، کسی جگہ معیوب نہیں سمجھا جارہاتھا ۔ پٹاخے بھی خوب پھوٹتے، پھلجڑیاں بھی چنگاریاں بکھیرتی تھیں ہر جمعرات کسی نہ کسی جگہ نذر و نیاز ضرور ہوا کرتی، جمعرات کو اکثریت میں گھروں سے اگربتی کی خوشبو فضا کو مقدس بنا دیتی گلیوں کے کسی نہ کسی کونے پر آواز آتی ” لو رے بچو شیرنی لو ” سب کام اپنے اپنے طور پر صحیح چل رہا تھا ۔اس وقت قوم 35 فیصد اعصابئ امراض کا شکار نہیں ہوئی تھی۔ مذہبی مریضوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مغربی پاکستان بٹوارے اور پھر بٹوارے کا مارا ہوا تھا اس لیے ہر چیز میں خوشیاں تلاش کر نے کی کوشش کر رہا تھا۔ توہین مذہب کیا ہوتی ہے اس کی صحیح ڈیفینیشن کیا ہے۔ کسی کو معلوم نہ تھا۔ ہائی اسکول تک پہونچے تو کہیں کہیں آوازین آنی شروع ہوئی شیزمارے ” کسی نے کان دھرے کسی نے نہیں دھرے۔ جب کالج تک آئے تو یہ وہ دور تھاجب ،جمیعت کے ویزے پرمٹ ریذیڈینس تک پہونچ چکے تھے اور ،این ایس ایف ،پی ایس ایف کے ویزوں کی معیاد بڑھوانے یانہ بڑھوانے پر غور ہو رہا تھا۔ اے پی ایم ایس او کاذکر بھی نہ تھا۔ اگر کہیں ہو بھی تو ہماری پہونچ سے بہت دور تھا۔ کم از کم انیس سو اکیاسی میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج کراچی میں تو ہمیں نظر نہیں آیا۔ مساجد میں جب یانبی سلام علیکٰ ” پڑھا تو” شیزمارے شیزمارے ٗ کہتا ایک گروپ وارد ہوا جس نے کہا کہ ” یا ” نہیں کہنا ” یا زندوں کے لیے کہا جاتا ہے۔
(جاری ہے)