اسی کی دہائی میں ،اپنی عمر کی دوسری دہائی کے پہلے سالوں میں ، جاپان پہنچے لوگوں کو تو موت ہی یاد نہیں تھی
کیونکہ نہ تو ان کا کوئی دوست مرتا تھا اور نہ ہی ان کو کسی جاپانی کی موت کا علم ہوتا تھا ،۔
اب جب کہ زیادہ تر اپنی عمر کی پانچویں دہائی میں ہیں تو ؟
یہی سننے کو ملے گا
وہ بھی گیا اور وہ بھی گیا ، اس بات کا کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ اگلی باری ” میری ” بھی ہو سکتی ہے ،۔
مشقت کو نیچ جان کر تن اسانی کی تلاش میں نکلے لوگون کو جاپان کی معیشت نے تن اسانی میسر کر دی ۔ْ
انکھون کی بھوک کو حلال فوڈ کے سستے ترین ایمورٹڈ گوشت نے نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ نکل سکی انکھون کی بھوک
کہ
جس کی انکھوں میں بھوک بس جائے اس کو پنجابی میں لینج کہتے ہیں ۔
اور لینج لوگ جب کھانا کھاتے ہیں تو معیار نہیں مقدار دیکھتے ہیں ،۔
اس کو کہتے ہیں “ لڑ مارنا”۔
بہت کم لوگوں اس بات کا ادراک تھا کہ کائینات کے ازلی اصولوں میں مشقت ہی تن درستی کی قیمت ہے ۔
اور دین ابراہیمی میں جو سات جرم بتائے گئے تھے ،۔،
چوری ، زنا، لوبھ ، کرود ، جھوٹ ، وعدہ خلافی ،
ان میں ساتوں جرم تھا بسیار خوری
یعنی “ لڑ مارنا” ،۔
اکثریت کو ادارک نہیں تھا اور جن کو ادارک تھا ،؟
وہ اپنی دنیا میں مگن رہے ، کیونکہ جاپان کے معاشرے میں پناھ گزین پاکستانیوں کی اکثریت دوسروں کو اس کی مالی حالت کے تناسب سے عزت دیتی تھی م،۔
بسیار خوری اور تن اسانی کی سزا ہے کہ جاپان ، جس ملک میں مقامی لوگوں کی عمر کی اوسط 96 سال ہے ،۔
یہاں پاکستانی اپنی پچھلی دھرتی کے لوگوں والی اوسط عمر 53 سال میں ہی دنیا سے کوچ کئے چلے جاتے ہیں م،۔
پنجابی ادب سے ایک شعر
شکر دوپہرے ، میرا ڈھل چلیا پرچھاواں
قبراں اڈیکدیاں ، جیویں پتراں نوں ماواں
(شیو کمار بٹالوی)