طلاق یافته والدین کے بچے ، آٹھ ممالک کے سفارت کاروں کا جاپان کو قوانین میں تبدیلی پر اصرار

نیٹسورس: امریکه سفیر اور اس کے ساتھ سات دوسرے ممالک کے سفارتکاروں نے جاپانی حکومت کو اس بات پر اصرار کیا هےکه  طلاق یافته جوڑوں کے وھ بچے جو که جاپانی ماں کی نگہداشت میں هوتے هیں ان کو باپ سے ملنے کے متعلق  آپنے قوانین میں تبدیلی لائیں ، یه بات ایک امریکی باپ کی عدالت سے رهائی کے دوسرے هی دن بعد کہی گئی هے

اس امریکی باپ پر الزم تھا که اس نے بچوں کو اغوا کرنےکی کوشش کی هے ، بچوں کے اغوا پر جاپانی قانون میں پانچ سال تک کی سزا هو سکتی ہے ـ

ساویس جو که ٢٠٠١ اور ٢٠٠٨ میں جاپان میں مقیم تھا  اپنی جاپانی بیوی کے ساتھ امریکه منتقل هو گیا جہاں ان میں ناچاتی پر طلاق هو گئی تھی ، ان کی شادی کے نتیجے میں پیدا هونے والے بچوں کو جاپانی ماں اپنے ساتھ جاپان لے آئی تھی جس پر امریکی عدالت نے اس کے وارانٹ جاری کردیے تھے که ساویس ایک دن سکول جاتے هوئے اپنے بچوں سے لپٹ گیا جس پر اس کی سابقه بیوی نے اس پر کیس کردیا که اس نے بچوں کو اغوا کرکے گاڑی ميں ڈالنے کی کوشش کی ہے ـ

امرکه کے ساتھ اسٹریلیا ، برطانیه ، کینڈا ، فرانس ، اٹلی ، نیوزی لینڈ اور سپین کے سفارت کاروں  حکومر پر زور دیا ہے که جاپانی مان کی نگہداشت میں  موجود بچوں تک غیر ملکی باپ کو  بھی رسائی ملنی چاہیے

یه دیکھا گیا ہے که بہت سی جاپانی مائیں طلاق کے بعد اپنی نگہداشت میں موجود بچوں تک باپ کو رسائی نہیں دیتی هیں ـ

ٹوکیو کا موقف ہے که اس کنوینشن پر دستخط جاپنی ماؤں اور ان کے بچوں کو غیر ملکی باپوں سے غیر محفوظ بنا دیں گے

لیکن وزیر خارجه اوکادا کھاتسیا نے کہا ہے که جاپان اس کنوینشن پر سائن کرنے کا رادھ رکھتا ہے

انہوں نےکہا که هر ملک اپنے اپنے سماجی رویے رکھتا ہے  ہماری کوشش هو گی که ان کا جائزھ لے کر کوئی بہتر راھ نکالی جائے

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.