ٹوکیو یونیورسٹی میں اسلام کے بارے میں سیمینار
رپورٹ : محمد انور میمن ، کاناگاوا
دنیا بھر کی طرح جاپان میں بھی اسلام کے بارے کے میں کافی غلط فہمیاں پائى جاتی ہیں ۔ ان میں کچھ تو دشمنان اسلام کی شرانگیزیوں کی وجہ سے ہیں ، اور کچھ ناواقفیت کی بناء پر ۔ تاہم ، دونوں طرح سے پیدا ہونے والی ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کا راستہ ایک ہی ہے ، اور وہ ہے جاپانیوں تک اسلام کی صحیح اور سچی تصویر پہنچانا ۔ اور یقیناً یہ کام جاپان میں مقیم مسلمانوں کے کرنے کا ہے ۔
اس مقصد کے لئے اتوار ۱۸ اکتوبر ۲۰۰۹ کو ٹوکیو یونیورسٹی کے یایوئى ہال میں ، ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔ سیمنار کا مقصد چونکہ عام جاپانی شہریوں کو اسلام سے روشناس کروانا تھا ، اس لئے سیمینار کی زبان جاپانی رکھی گئى تھی ۔ سیمینار کا انعقاد جاپان جاپان مسلم پیس فیڈریشن نے ٹوکیو یونیورسٹی کے ادارہ برائے تحقیق اسلامی کے ساتھ مل کر کیا تھا ۔ سیمینار کو جاپان میں موجود اسلامی تنظیموں ، بالخصوص جاپان مسلم ایسوسی ایشن کا تعاون حاصل تھا ۔ تقریب کی نظامت کا فرض راقم نے انجام دیا ۔
سیمنار کا مرکزی موضوع اسلام کا معاشی نظام تھا ۔ سیمنار سے ایک ملائیشیائى جبکہ دو جاپانی پروفیسروں نے خطاب کیا ۔ ملائیشیا کی اسلامی یونیورسٹی سے آئے ہوئے مہمان پروفیسر ، ڈاکٹر احمد کمیل مائیدین میرا نے اسلام کے معاشی اور مالیاتی نظام پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام تمام طبقات کے لئے منصفانہ معاشی نظام کی تشکیل کا طریقہ بتاتا ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ اسلام کے معاشی نظام کو اپنانے سے عالمی معیشت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ تاہم ، انھوں نے یہ بھی کہا کہ مکمل اسلامی مالیاتی نظام کے بغیر، خصوصاً کرنسی کی پشت پر سونے وغیرہ جیسی قیمتی اشیاء کی غیر موجودگی والے موجودہ مالیاتی نظام میں ، صرف بلاسود اسلامی بینکاری زیادہ بہتر نتائج نہیں دے سکتی ۔ مہمان پروفیسر کا خطاب انگریزی میں تھا ، لیکن اس کے جاپانی ترجمے کا انتظام بھی کیا گیا تھا ۔
دوسرے مقرر ، جاپان کی خواتین یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر آکیرا اُسُوکی تھے ۔ انہوں نے جنگ عظیم دوم کے وقت سے جاپان میں مسلمانوں اور اسلام پر تحقیق کی تاریخ پر روشنی ڈالی ۔
سیمنار کے تیسرے اور آخری مقرر ، کے او یونیورسٹی کے پروفیسر ، ڈاکٹر کمال آتسُوشی اوکُودا تھے ۔ ان کی تقریر کا موضوع موجودہ دور کا جہاد تھا ۔ انھوں نے موجودہ دور کو اسلام کے ابتدائى مکی دور سے تشبیہہ دیتے ہوئے ، دعوت کے کام پر زور دیا ۔ خود جاپانی اور مسلمان ہونے کے حوالے سے ، انہوں نے جاپانیوں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے ایسے طریقوں پر روشنی ڈالی ، جن کے ذریعے جاپانی شہری مذہب کا نام سن کر دور بھاگنے کی بجائے آپ کی بات پر توجہ دیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تبلیغ اسلام کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ یہاں موجود مسلمان ، اپنے اخلاق و کردار سے غیر مسلم جاپانیوں کو اپنی جانب متوجہ کریں ۔
واضح رہے کہ اتوار کا سیمنار ، اس سلسلے کا دوسرا سیمینار تھا ۔ پہلا سیمنار ، ۲۱ ستمبر ۲۰۰۸ کو اسی جگہ منعقد کیا تھا ۔ گزشتہ سال کے سیمینار کا موضوع امن عالم کے لئے محمد صلی اللٰہ علیہ وسلم کا کردار تھا ۔
سیمینار کے انعقاد کا پس منظر :
چند برس قبل ڈنمارک کے اخبارات میں نبی کریم صلی اللٰہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے واقعات ہوئے تھے ۔ دنیا بھر کی طرح جاپان میں بھی ان پر احتجاج کیا گیا تھا ۔ اس سلسلے میں احتجاجی جلسے کا انعقاد اور ڈنمارک کے سفیر کو احتجاجی یادداشت بھی پیش کی گئى تھی ۔ ان واقعات کی عام جاپانی اخبارات میں رپورٹنگ سے جاپانی شہریوں کو بھی ، اس معاملے پر مسلمانوں کے غم وغصے سے آگاہی ہوئى تھی ، جو اپنی جگہ ایک خوش آئند بات تھی ۔ اکثر ایسے مواقع پر مختلف تنظیمیں اپنے اپنے لحاظ سے احتجاج کرتی ہیں ، لیکن ڈنمارک کے مذکورہ واقعے کے بعد جاپان میں موجود تقریباً تمام مسلم تنظیمیں اکٹھی ہوئى تھیں ۔ اس مقصد کے لئے جاپان مسلم پیس فیڈرےشن کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم یا اتحاد تشکیل گیا تھا ۔
احتجاج کے خاتمے کے بعد ، نئے اتحاد کے ایک اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا ، کہ ایسے واقعات پر احتجاج کے ساتھ ساتھ ، جاپان میں مقیم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جاپانیوں کو ممکنہ حد تک بہتر انداز سے اسلام کا پیغام پہنچائیں ۔ جاپان میں کئى اسلامی تنظیمیں اپنے اپنے طریقوں سے تبلیغ اسلام کا کام کر رہی ہیں ۔ چنانچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ نئے مشترکہ پلیٹ فارم سے ، علمی انداز سے اور اعلٰی تعلیمیافتہ پروفیسروں کے ذریعے یہ پیغام جاپان کے اعلٰی تعلیمیافتہ طبقے تک پہنچایا جائے ۔ اس مقصد کے لئے سیمنار کے طریقے کا انتخاب کیا گیا ۔
بات چونکہ جاپانیوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی تھی ، اس لئے یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ سیمنار کی زبان جاپانی ہی ہو ، اور اس میں مقررین بھی زیادہ تر جاپانی ہی ہوں ۔ اگر بین الاقوامی شہرت یافتہ کسی غیر ملکی پروفیسر کو مدعو کیا جائے ، تو ان کی تقریر کے جاپانی ترجمے کا انتظام بھی ہو ۔ اس کے ساتھ ساتھ مہمان مقرر سے جاپانیوں کے سوالات اور ان کے انگریزی جوابات کے ترجمے کی ضرورت کو بھی محسوس کیا گیا ۔ سیمنار کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ملحوظ رکھا گیا کہ مقررین میں کم از کم ایک غیر مسلم جاپانی پروفیسر بھی شامل ہو ، تاکہ عام جاپانی شہریوں کو یہ احساس دلایا جا سکے ، کہ صرف مسلمان ہی اپنے نبی کی خوبیاں نہیں بیان کر رہے ، بلکہ غیر مسلم جاپانی اہل علم بھی محمد صلی اللٰہ علیہ وسلم کے کردار کے معترف ہیں ۔
سیمنار کی تیاریوں کے لئے تقریباً ایک سال تک تیاریاں کی گئیں ۔ تیاریوں کے لئے ہونے والی میٹنگوں میں مختلف اسلامی تنظیموں کے افراد کی شرکت سے اس علمی سیمنار کا انعقاد ممکن ہو سکا ۔ اس سلسلے میں خصوصاً اوتسکا مسجد کا تعاون بہت اہم ہے ، جہاں یہ میٹنگز منعقد کی گئیں ۔ غیر ملکی مہمانوں سے رابطے سے لے کر ، جاپانی پریس وغیرہ کو اطلاعات پہنچانے تک ، تمام دفتری امور کے لئے بھی اوتسکا مسجد کے دفتر کو استعمال کیا گیا ۔ سیمنار کے لئے لٹریچر کی تیاری میں جاپانی زبان کی درستگی کے لئے جاپان مسلم ایسوسی ایشن کا تعاون بھی نہایت اہم ہے ۔
اللٰہ تعالٰی ، اس سیمینار کے انعقاد کی تمام کوششوں کو قبول فرمائے ، اور اس میں حصہ لینے تمام افراد کو اجر عطا فرمائے ۔ آمین ۔
نوٹ : سیمنار کی تفصیلات اور گزشتہ سیمینار کی وڈیو ، جاپان مسلم پیس فیڈریشن کی ویب سائٹ پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔ http://www.j-muslims.org