تحریر : محمد انور میمن
جاپان میں پاکستان ایسوسی ایشن کے نام سے تین تنظیموں کے قیام اور ان کے اختلافات سے کمیونٹی میں مسائل پیدا ہونے کے بعد ، عوامی دباؤ کے تحت تینوں تنظیموں کی تحلیل کا اعلان کیا گیا تھا ، جس کا کمیونٹی میں زبردست خیر مقدم کیا گیا تھا ۔ اس عوامی خیر مقدم کی بنیادی وجہ کمیونٹی کی یہ توقعات تھیں کہ آئندہ »پاکستان ایسوسی ایشن جاپان« کے نام سے ایک ہی تنظیم ہوگی ، اور وہ تمام پاکستانیوں کی نمائندہ تنظیم ہوگی ۔ لوگوں کو یہ امید پیدا ہوئى تھی کہ اب کچھ لوگ اپنے بڑے کاروبار یا سیاسی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے ایسوسی ایشن پر قابض نہیں ہو سکیں گے ، بلکہ اب ایسوسی ایشن باقاعدہ منشور کے تحت ، منظم انداز میں چلائى جائے گی ۔ اس سلسلے میں راقم نے کچھ عرصے قبل تجویز دی تھی کہ کمیونٹی کے پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ایک عبوری کمیٹی بنائى جائے جو دستور مرتب کرے ، اور اس کے ساتھ ساتھ ایسوسی ایشن کے عہدوں پر انتخابات کا طریقہ طے کرے ۔ اس عبوری کمیٹی میں سابقہ ایسوسی ایشنوں کے کچھ افراد کو بھی ان کے تجربے کی بنیاد پر شامل کیا جانا چاہئے ، لیکن ان سے ہٹ کر بھی عبوری کمیٹی میں کمیونٹی کی وسیع نمائندگی ہونی چاہئے ۔
حالیہ کچھ عرصے میں اس سلسلے میں دو اقسام کی کاروائیاں دیکھنے میں آرہی ہیں ۔ ایک نیٹ اخبارات یا نجی گفتگو میں یہ تاثر دیا جانا کہ چونکہ سابقہ ایسوسی ایشنوں کی وجہ سے کمیونٹی تقسیم ہو گئى تھی ، اس لئے اب ایسوسی ایشن کی کوئى ضرورت نہیں ہے ۔ میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا ، اور میرے خیال میں ایک متفقہ ایسوسی ایشن کمیونٹی میں مزید اتحاد پیدا کر سکتی ہے ۔
دوسری کاروائى اس سلسلے میں کچھ اجلاسوں کی ہے ، جن کے محرکین سابقہ ایسوسی ایشنوں کے نمائندے ہیں ۔ یقیناً نئى ایسوسی ایشن کے قیام کے لئے کمیونٹی کے مختلف سرکردہ افراد کے مابین گفتگو اور بحث و مباحثہ ضروری ہے ، لیکن اسے تمام افراد کے لئے کھلا مباحثہ ہونا چاہئے ، اور ایسا محسوس نہیں ہونا چاہئے کہ کہیں خفیہ طور پر کوئى سازش ہو رہی ہے ۔ حقیقتاً سازش نہ ہونے کے باوجود ، سازش کا گمان ہونا بھی ایسے اجلاس کی ناکامی ہے ، جس سے کمیونٹی کا اعتماد مجروح ہوتا ہے ۔
نئى متفقہ ایسوسی ایشن کے حوالے سے ۵ نومبر کو اردونیٹ میں ملک حبیب الرحمٰن صاحب کا ایک مضمون چھپا ہے ، جس میں انہوں نے الکرم ریستوران میں ہونے والے اجلاس کا دفاع کرتے ہوئے ، اس کا واحد مقصد »تینوں سابقہ ایسوسی ایشنز کے اتحاد کے لئے ایکشن کمیٹی کا قیام« بتایا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کا ملک حبیب کی یہ وضاحت سازشی نظریے کو مزید تقویت دیتی ہے ۔
ملک حبیب صاحب تکنیکی طور پر ناممکن بات کر رہے ہیں ۔ »سابقہ ایسوسی ایشنز« کا مطلب ہی یہ ہے کہ اب وہ ایسوسی ایشنز وجود نہیں رکھتیں ۔ جو تنظیمیں تحلیل ہوچکی ہیں ، ان کا اتحاد چہ معنی دارد ؟ اتحاد تو وجود رکھنے والی تنظیموں کا ہوتا ہے ۔ تحلیل شدہ ایسوسی ایشنوں کے اتحاد جیسی بے معنی بات کی بجائے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ »نئى متفقہ پاکستان ایسوسی ایشن« کی تشکیل کی جائے ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک حبیب اس معاملے پر کچھ کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ نجی ملاقاتوں میں وہ کئى افراد کی موجودگی میں کئى بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ایسوسی ایشنیں دراصل تحلیل نہیں کی گئى تھیں ، بلکہ ان کے عہدیداروں نے استعفے دئے تھے ۔ اگر ان کے خیال کو درست مان لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس حیثیت میں نئى ایسوسی ایشن کے قیام کی کوشش کررہے ہیں ۔ عہدیداروں کے استعفے کی صورت میں تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ تینوں تنظیمیں اپنے نئے عہدیداروں کا انتخاب کرتیں ، اور اس کے بعد تینوں موجود تنظیمیں اتحاد کی کوشش کرتیں ۔
میں رواں سال جولائى میں ہونے کمیونٹی اجلاس میں شریک نہیں تھا ، تاہم اس اجلاس کی جو روداد تمام اردو اخبارات میں شائع ہوئى تھی ، اس میں واضح طور پر »ایسوسی ایشنوں کی تحلیل« کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے ۔ اب تک ملک حبیب سمیت کسی نے بھی ، کسی اخبار کے ذریعے اس کی باقاعدہ تردید نہیں کی ۔ چنانچہ یہ سمجھنے کا جواز موجود ہے کہ سابقہ تنظیمیں حقیقتاً تحلیل کی گئى تھیں ۔ اس کے علاوہ ملک حبیب کی طرف یہ بیان بھی منسوب کیا گیا تھا کہ انہوں نے کمیونٹی سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا ۔ انہوں نے کبھی اس رپورٹ کی تردید بھی نہیں کی ۔ تو ایسی صورت میں تحلیل شدہ تنظیموں کے اتحاد کی بات ایک ناممکن چیز ہے ۔ یہ گویا پانی سے مکھن نکالنے والی بات ہے ۔ انتھک کوششوں اور پوری لگن اور اخلاص کے باوجود یہ کام ممکن نہیں ہے ۔
وہ تنظیمیں اپنا وجود کھو چکی ہیں ، اس لئے اب ان کو چھوڑ کر ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ۔ نئى متفقہ ایسوسی ایشن کے قیام کے لئے پرانی ایسوسی ایشنوں کے تجربے کے حامل کچھ افراد کو ان کی انفرادی حیثیت میں عبوری کمیٹی میں شامل کیا جانا چاہئے ، تاہم یہ ضروری نہیں کہ وہ سابقہ ایسوسی ایشنوں کے صدور ہی ہوں ۔ پچھلی تنظیموں کے کسی بھی سابقہ عہدیداد کو اس کے تجربے کی روشنی میں عبوری کمیٹی میں شامل کیا جا سکتا ہے ، لیکن اس کی انفرادی حیثیت میں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ پہلے مرحلے میں کمیونٹی کے مختلف افراد کو نئى تنظیم کے قیام کے لئے اپنی تجاویز نیٹ کے ذریعے دینی چاہئیں ، اور ان پر بحث و مباحثے کے بعد جب ایک خاکہ سامنے آنے لگے تو ایک وسیع اجلاس عام بلا کر عبوری کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ عبوری کمیٹی چند ماہ میں دستور تشکیل دے اور انتخابات کا طریقہ کار طے کرے ، جس کی روشنی میں نئی پاکستان ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ اور یقیناً عبوری کمیٹی میں شامل افراد کو پہلے انتخابات میں شرکت کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔
یہ سارا عمل بنیادی طور پر پاکستانی کمیونٹی کو خود ہی انجام دینا ہے ، اور پاکستان کے سفارت خانے کا اس میں کوئى کردار نہیں ہونا چاہئے ۔ تاہم ، سفارت خانے کو یہ یقین دہانی ضرور کروانی چاہئے کہ وہ چند افراد کی قائم کردہ تنظیم کو کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم تسلیم نہیں کریں گے ۔ اور حقیقی متفقہ پاکستان ایسوسی ایشن کے قیام کے لئے تمام کمیونٹی کو اعتماد میں لیتے ہوئے ، شفاف عمل کے ذریعے اس کی تشکیل کی جانی چاہئے ۔
آخر میں ، میں ملک حبیب الرحمٰن صاحب کے کچھ الفاظ سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں دہرانا ضروری سمجھتا ہوں ۔
کسی بھی ملک کی حکومت اور اس کے سرکاری یا نیم سرکاری ادارے اُس ملک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے معاملات طے کرنے کے سلسلے میں صرف اور صرف پاکستانی کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم سے رابطہ قائم رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں ، نہ کہ کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے ۔ اس لئے جاپان میں پاکستانی کمیونٹی کی ایک متحد اور مضبوط پاکستان ایسوسی ایشن کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
البتہ میں اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہوں گا ، کہ اس متحد اور مضبوط پاکستان ایسوسی ایشن کا قیام شفاف انداز میں ، اور کمیونٹی کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہئے
2 comments for “متفقہ پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کی تشکیل”