یه ای میل مجھے بہت دن پہلے ملی تھی لیکن اس کو شائع ناں کرسکا ، که میں اس پر کچھ لکھ کر شائع کرنا چاھتا تھا
لیکن اب اس تحریر پر تبصرے میں آپ پڑھنے والوں پر چھوڑتا هوں ـ
السلام علیکم
خاور صاحب ، جاپان انٹرنیشنل پریس کلب کے اجلاس میں آپ کی موجودگی کی خبر پڑھی ۔ لگتا ہے بالآخر آپ نے خود کو صحافی تسلیم کر لیا ۔
ویسے یہ دنیا کی عجیب تنظیم ہے ، جو قائم پہلے ہوگئى ، لوگوں کے جوق در جوق اس میں شامل ہونے کی خبریں بھی شائع کر دی گئیں ، لیکن تنظیم کے اغراض و مقاصد کا تعین کرنے کے لئے اجلاس بعد میں ہو رہے ہیں ۔ شاید یہ اپنی نوعیت کی دنیا میں پہلی ہی تنظیم ہوگی ۔
عام طور پر تنظیموں کے قیام کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ کسی نئى تنظیم کا آئیڈیا پیش کرتے ہیں ۔ ان کے ذہن میں جو اغراض و مقاصد ہوتے ہیں ، وہ انہیں ہمخیال لوگوں کے ساتھ ڈسکس کرتے ہیں ۔ اس کے بعد تنظیم کے قیام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ یعنی پہلے متعلقہ لوگوں کو یہ کہہ کر دعوت دی جاتی ہے کہ ہم اس اس طرح کی تنظیم »بنانا چاہ رہے ہیں« ، آپ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوں ۔ اس طرح مل جل کر تنظیم قائم کی جاتی ہے ۔
لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے ۔ وہ یوں کہ لوگوں کو بتایا جارہا ہے کہ ہماری تنظیم »قائم ہو چکی ہے« ، اگر آپ شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہم سے رابطہ کیجئے ۔ بہت خوب ۔ اب کوئى ان سے پوچھے ، کہ کب قائم ہوئى ، کس نے قائم کی ، کن اصولوں پر قائم کی گئى ؟؟؟ تو شاید ان سوالوں کے جوابات بھی اوٹ پٹانگ ہی ہوں گے ۔ کیونکہ کچھ عرصے قبل ہم نے پڑھا تھا کہ آرائیں صاحب کی دعوت میں عرفان صدیقی نے کہا کہ وہ جاپان انٹرنیشنل پریس کلب »بنائیں گے« ۔ اس کے چند روز بعد سے »صحافیوں« کے جوق در جوق اس میں شامل ہونے کی خبریں آنی شروع ہو گئیں ۔
اور اس میں شرکت کے لئے »صحافیوں« کا معیار کیا ہے ۔ نہ صرف ہر وہ شخص جو اپنی ویب سائٹ چلاتا ہے ، بلکہ کسی کی ویب سائٹ پر چند لائنوں کا الٹا سیدھا مضمون یا بے تکی شاعری کے ذریعے بھی آپ صحافیوں کی اس تنظیم میں شامل ہو سکتے ہیں ۔
گویا ۔۔۔۔۔ کسی پر کیچڑ اچھالئے ، اور صحافی بن جائیے ۔
۔ یہ ہے ان کا معیار ۔
ویسے میرا یہ تبصرہ اگر آپ سائٹ پر لگانا چاہیں ، تو میرے نام کے بغیر ، یعنی »ایک پاکستانی« کے نام سے لگا سکتے ہیں ۔
شکریہ ۔
2 comments for “ایڈیٹر کے نام ایک ای میل”