History of Japan-03Afridiجنگِ عظیم اول
جنگ عظیم اول سنہ 1914 سے 1918 تک لڑی گئى جو تاریخ میں انسانیت سوز واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار کیمیائى ہتھیار اور زہریلی گیس استعمال کی گئى ۔ شہری آبادی پر بڑے پیمانے پر بمباری کی گئى اور تاریخ میں پہلی بار بڑی تعداد میں فوج کو حرکت میں لایا گیا ۔ اِس جنگ نے قدیم یورپ کو مٹا کر نئے یورپ کو جنم دیااور آمریت کا خاتمہ ہوگیا ۔ یہ انسانی تاریخ کی ایک تباہ کُن جنگ تھی جس میں 90,000,00 سے زیادہ مرد ، میدانِ جنگ میں ھلاک ہوئے اور اتنے ہی عام افراد غربت ، بھوک، قحط ، بیماری اور نسل کشی جیسے واقعات کی نذر ہوئے ۔ تاریخ کچھ یوں بتاتی ہے کہ 19 ویں صدی کے اواخر میں یورپ میں اتحاد بننے لگے تھے ۔ سنہ 1879 میں آسٹریا ۔ ہنگری جواُس وقت ایک ملک تھا اور جرمنی نے روس سے بچنے کیلئے آپس میں اتحاد کیا جِسے دی ڈول ایلائنس کہتے ہیں ۔ سنہ 1881 میں آسٹریا۔ہنگری نے سربیا کے ساتھ بھی اتحاد کیا اور اِس کا مقصد بھی روس کی سربیا کی جانب پیش قدمی کو روکنا تھا ۔ ایک سال بعد سنہ 1882 میں دی ٹرپل ایلائىنس نامی اتحاد معرض وجود میں آیا جس میں جرمنی اور آسٹریا۔ہنگری نے اٹلی کے ساتھ معاہدہ کیا ۔ اِس اتحاد کا مقصد اٹلی کو روس کے ساتھ شامل ہونے سے روکنا تھا ۔ اِن بدلتے حالات میں روس نے بھی اپنی حکمت عملی بدلتے ہوئے سنہ 1894 میں فرانس کے ساتھ فرنکو۔رشین ایلائنس کے نام سے ایک اتحاد بنایا جس کا مقصد جرمنی اور آسٹریا ۔ ہنگری سے اپنا دفاع کرنا تھا ۔ سنہ 1904 میں فرانس اور برطانیہ نے اینتات کورڈئیل کے نام سے ایک معاہدہ کیا جو باقاعدہ اتحاد تو نہیں تھا تاہم قریبی تعلقات کیلئے بہت اہمیت کے حامل تھا ۔ اِسی طرح کا ایک معاہدہ ، برطانیہ اور روس کے مابین سنہ 1907 میں اینگلو۔رشین اینتات کے نام سے دستخط ہوا ۔ جرمنی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے اِسی سال یعنی سنہ 1907 میں ٹرپل اینتات کے نام سے ایک معاہدہ ہوا جس میں روس ، فرانس اور برطانیہ شامل تھے ۔ اب یورپ تقسیم ہوگیا تھا یعنی ایک جانب جرمنی ، آسٹریا ۔ ہنگری ، سربیا اور اٹلی ، جبکہ دوسری جانب روس ، فرانس اور برطانیہ تھے ۔چونکہ جاپان سنہ 1902 میں برطانیہ کے ساتھ معاہدہ کرچکا تھا اِس لیے اُس نے برطانیہ کی طرفداری کرتے ہوئے اعلان جنگ کیا اور جرمنی کو دھمکی دی کہ وہ فوری طور پر مشرقی بعید سے اپنے جنگی بحری جہاز باہر کردے اور چین کے علاقے کیاوچو، جو موجودہ چِینداؤ کے نام سے پہچانا جاتا ہےمیں واقع اڈے سے دستبردار ہوجائے ۔ جب جرمنی نے کوئى جواب نہیں دیا تو جاپان نے اعلان جنگ کردیا ۔ جاپان کو بہت کم جانی نقصان کے بدلے فتح نصیب ہوئى ۔ اب جاپان کا ایشیاء میں اثر مزید بڑھنے لگا اور اُس نے بحرالکاہل اور اردگرد زیر قبضہ علاقوں پر اپنی گرفت کو مزید تقویت دی ۔ سنہ 1915 میں جاپان نے چین سے 21 مطالبے کیے ۔ چونکہ اُس وقت چین خاصا کمزور ہوگیا تھا اِسلئے بغیر کسی مزاحمت کے زیادہ تر مطالبات مان لیے اور شمال مشرقی چین میں جاپانی اختیار کو تسلیم کرلیا ۔ جاپان نے اپنی زیر قبضہ علاقے اور ریل کی پٹڑی کو منچوریا تک وسعت دی ۔ سنہ 1917 میں جاپان کے اتحادیوں نے اُس کی جانب سے جنگی حمایت کرنے پر جاپانی قبضوں اور دعوؤں کی خُفیہ طور حمایت کرنے پر اتفاق کیا ۔ جنگ عظیم اول ابھی جاری تھی کہ اِس دوران سنہ 1917 میں روس میں انقلاب آیا اور خانہ جنگی شروع ہوگئى ۔ اِس بدنظمی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکہ، برطانیہ اور جاپان نے اپنی افواج ولاڈیواسٹوک میں اُتار دیں اور ٹرانس سائبیریا ریلوئے تک کے کئى سو کلومیٹر علاقے پر قبضہ کرلیا ۔ سرکاری طور پر تو یہ کہا گیا کہ اِس آپریشن کا مقصد اتحادیوں کے وہ ہتھیار برآمد کرنا ہیں جو روس لیجائے گئے ہیں ۔ لیکن اِس کا اصل مقصد انقلاب روس یا بالشویک ریولوشن کے مخالفین کی مدد کرنا تھا۔ابتداء میں ہر مُلک نے 7000 ہزار فوجی سائبیریا بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن جاپان نے فوری طور پر زیادہ ملوث ہونے کیلئے 72,000 اہلکار روانہ کیے ۔ برطانیہ اور امریکہ کو اب خدشہ ہونے لگا کہ یوں جاپان وہاں پر مستقل اڈے بنا سکتا ہے اور پھر وہاں سے جاپان کو نکالنے میں وقت لگے گا ۔ اُدھر یورپ میں جنگ عظیم اول ایک بڑی تباہی کے بعد ختم ہونے لگی ۔ جنگ لڑنے والے تمام ممالک اب تصفیہ کرنے لگے تھے اور اِس مقصد کیلئے فرانس کے شہر ورسائلز میں ایک کانفرنس بُلائى گئى ۔ جاپان بھی اِس کانفرنس میں مدعو تھا ۔ سنہ 1919 میں ٹریٹی آف ورسائلز نامی معاہدہ دستخط ہوا ۔ اِسی کانفرنس میں جاپان کو نئے بین الاقوامی نظام میں سرکاری طور پر دُنیا کے پانچ بڑے ممالک میں سے ایک تسلیم کیا گیا ۔ جاپان نے نئى بین الاقوامی تنظیم لیگ آف نیشن میں شمولیت اختیارکی ۔ جاپان کی منچوریا اور سخالین میں عملداری کو تسلیم کیا گیا اور بعد میں یہ آخری اتحادی تھا ، جس نے روس سے سنہ 1925 میں انخلاء کیا ۔ جب جولائى سنہ 1914 میں جنگ عظیم اول چِھڑگئى تو یورپ کے ممالک ایک دوسرے پر حملے کرنے لگے جس کی وجہ سے اُن کی بین الاقوامی تجارت معطل ہوگئى تھی ۔ اب وہ باقی دُنیا کو کپڑا، مشینری اور کیمیکل برآمد کرنے سے قاصر تھے ۔ اِن حالات میں جاپانی مصنوعات کی مانگ بڑھ گئى جس سے جاپانی تاجر اور سرمایہ کار اچانک امیر ہوگئے اور اُنہوں نے سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ کیا ۔ ہزاروں فیکٹریاں تعمیر کی گئیں اور جاپانی ٹیکسٹائل کی برآمد میں بہت اضافہ ہوا ۔ چونکہ جاپانی مصنوعات اِس سے قبل سستی اور غیر معیاری ہوتی تھیں ، لہذا سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں نے پیداواری معیار کو بہتر کرنے کیلئے بیرونی ممالک سے جدید مشینری اور جدید تکنیک حاصل کی ۔ یوں کئى بڑی کمپنیاں معرضِ وجود میں آئیں اور مُلکی دولت کا بڑا حصہ اُن کے ہاتھ آیا ۔ جاپان میں قدرتی وسائل کی کمی اور تیزی سے بڑھتی ہوئى آبادی ایک لمحہء فکر بنتا جارہا تھا ۔ سنہ 1920 میں جاپان کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ سے زیادہ تھی جو گیارہ سال بعد ساڑھے چھ کروڑ تک جا پہنچی ۔ اُس دور میں آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح دس لاکھ تھی ۔ جاپانی معیشت کو روزگار کے سالانہ ڈھائى لاکھ مواقع پیدا کرنے کی ضرورت تھی ۔ جاپان نے اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے اپنی برآمدات میں اضافہ کیا ۔ لیکن سنہ 1929 سے سنہ 1931 تک عالمی کسادبازاری یا مندی یعنی گریٹ ڈیپریشن کا دور دورۀ تھا ۔ عالمی تجارت کی حالت دگرگوں تھی ۔ مُلکوں نے درآمدات میں کمی کردی تھی ۔ بے روزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ، اُجرتوں میں کمی کی گئى ۔ نتیجتاً مظاہروں نے زور پکڑ لیا اور یورپ مایوسیوں کے بادلوں میں گِھرگیا ۔ اِنہی حالات نے جاپان پر بھی اثر کرنا شروع کردیا تھا ۔ سنہ 1920 کی دھائى میں جاپان کی جمہوری تحریک نے بھی زور پکڑا جسے تائىشو جمہوریت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ 30 جولائى کو شہنشاہ میجی کے انتقال کے بعد تائىشو نے جاپان کے 123 ویں شہنشاہ کی حثیت سے منصب سنبھالا جن کا دور30 جولائى 1912 سے 25 دسمبر1926 تک رہا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان میں شہنشاہ اپنے اصلی نام سے نہیں بلکہ اعزازی نام سے پہچانا جاتا ہے اور تاریخ میں اُن کے دور کواِنہی ناموں لکھا جاتا ہے تو یوں تائىشو بھی اعزازی نام ہے ۔ میجی دور میں بڑے پیمانے پر اندرون و بیرون مُلک سرمایہ کاری اور دفاعی پروگراموں پر کثیر اخراجات کی وجہ سے سرمایے کی قلت ہونے لگى اور نوبت یہاں تک آ گئى کہ بیرونی قرضے لوٹانے کیلئے مناسب رقوم کی دستیابی مشکل بنتی جارہی تھی ۔ جاپان کے اندر سیاسی اور معاشی دباؤ بڑھتا جا رہا تھا ۔ اندرون ملک پیچیدگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جاپان نے سائبیریا کی مہم جوئى سے کچھ خاص حاصل نہیں کیا تھا اِسلئے فوج کا ملکی سطح پر اثر کم ہونے لگا ۔ واشنگٹن میں سنہ 1921-22 میں ہونے والی کانفرنس میں اتحادی ممالک نے جاپان پر زور ڈالا کہ وہ بحریہ کے حوالے سے 3-5-5 کی شرح کا معاہدہ دستخط کرے یعنی ہر پانچ امریکی اور پانچ برطانوی بحری جنگی جہازوں کے مقابلے میں جاپان کوتین جہاز رکھنے کی اجازت ہوگی ۔ یہ جاپان کی سفارت کاری میں شکست کا ایک بڑا واقعہ سمجھا جاتا ہے ۔ سنہ 1920 کے بعد کا جاپانی دور اندرونی بدامنی کا شکار رہا ۔ خراب اقتصادی حالات کی وجہ سے ملکی سیاسی عدم استحکام بڑھتا گیا اور کئى سیاست دانوں بشمول ایک وزیراعظم کے قتل کردئے گئے ۔ فوج پر نہ تو پارلیمنٹ اور نہ ہی حکومت کو کنٹرول تھا اور یہاں تک کہ شہنشاہ بھی بے بس تھا ۔ بلکہ حکومت کی باگ دوڑ عوامی حکومت کی بجائے فوج کے ہاتھوں میں تھی ۔ جاپانی سیاسی پارٹیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ اپنے مفاد کی خاطر قوم کو متحد کرنے کے بجائے منقسِم کرنے کی وجہ بن گئى ہیں ۔ بالاخر تمام پارٹیوں نے اپنے آپ کو تحلیل کرنے پر رضامندی ظاہرکرکے یک جماعتی تنظیم امپریل رول اسیسٹینس ایسوسیشن قائم کی جس میں سیاسی جماعتوں ، پریفیکچروں، جو ایک ضلع جتنا علاقہ ہوتا ہے، میں قائم خواتین اور ہمسایوں کی تنظیموں نے شمولیت کی ۔ لیکن اِس تنظیم میں مربوط سیاسی ایجنڈے کی کمی تھی لہذہ ، گروپوں کی باہمی چپقلش اور جھڑپیں بدستور جاری رہیں ۔ دراصل اِس تنظیم کے قیام کی وجہ جہاں مُلکی بدحالی تھی وہاں ساکورائے بلاسم سوسائٹی بھی تھی ۔ یہ قوم پرستوں کی ایک خُفیہ تنظیم تھی جو د سمبر 1930 میں جاپان کی شاہی فوج میں شامل لیفٹینٹ کرنل کینگورو ہاشی موتو، نے دیگر کئى نوجوان افسروں کے ساتھ ملکر بنائى تھی ۔ اِس کا مقصد ریاست کو عسکری خطوط پر منظم کرنا تھا اور اِس مقصد کیلئے اگر بغاوت کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو اُس پر بھی عمل درآمد کیا جائے گا۔ ہاشی موتو، اُن دِنوں میں جاپانی شاہی فوج میں روسی شعبہء کے سربراہ تھے ۔ ابتداء میں اِس خفیہ تنظیم کے تقریباً دس ارکان تھے جو فروری 1931 میں پچاس سے زیادہ ہوگئے تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق اکتوبر میں اِن کی تعداد سینکڑوں ہوگئى ۔ اُنہوں نے ملک کے سیاسی اور معاشی نظام کو بدعنوان قراردیا اور وہ ریاستی سوشلزم لاکر نئى تبدیلی لانا چاھتے تھے ۔ لیکن دو واقعات میں ناکامی کے بعد اِس تنظیم کی قیادت کوگرفتار کرلیا گیا اور تنظیم توڑی دی گئى ۔ اُدھر یورپ میں حالت کچھ یوں رُخ اختیار کررہے تھے کہ سنہ 1930 کی دھائى میں ابتدائى چند سالوں تک کساد بازاری رہنے کے بعد حالات سنھبلنے پر کئى مُلکوں میں مطلق العنان حکومتیں قائم ہوچکی تھیں جن میں ایڈولف ہٹلر سرفہرست تھے ۔ وہ سنہ 1933 میں جرمنی کے چانسلر یعنی ریاستی سربراہ بن چکے تھے ۔ اُن کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے بے چینی بڑھتی جارہی تھی ۔ ایک طرف جرمنی پولینڈ کو قبضے میں لینے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تو دوسری جانب اٹلی نے ایتھوپیا پر قبضہ کرلیا تھا ۔ جاپان اور چین کے تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہوگئى تھی کیونکہ جاپان کے زیرِقبضہ علاقے منچوریا میں واقع جاپانی ریلوئے لائن پر ایک دھماکہ ہوا ۔ جاپانیوں نے اِس تخریب کاری کا الزام چینیوں پر لگایا لیکن کچھ کا خیال ہے کہ جاپانیوں نے خود دھماکہ کرکے منچوریا پر فوجی کشی کا جواز بنایا تاکہ معیشت کیلئے مزید وسائل، جاپانیوں کی آباد کاری اور مصنوعات کی فروخت کیلئے منڈیاں حاصل کی جائیں اور ایشیاء پر اپنی ثقافتی بالادستی قائم کی جائے ۔ بحرحال اِس دھماکے کی وجوہات ابتک متنازعہ ہیں۔ یہ واقعہ تاریخ میں مکدین انسیڈنٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ھے ۔ جاپانی فوج نے سنہ 1931 میں لیفٹیننٹ کرنل کانجی ایشی وارا کی قیادت میں منچوریا پر چڑھائى کی اور چین اور اندرون منگولیا کے علاقوں پر مشتمل منچوریا میں مانچو کو نامی ایک آزاد ریاست قائم کردی جو دراصل ایک کٹھ پُتلی حکومت تھی ۔ اُس وقت چین میں قوم پرست رہنماء چیانگ کائی شیک کی ایک کمزور حکومت قائم تھی جو مختلف دھڑوں کے مابین لڑی جانے والی اندرونی خانہ جنگی سے مشکلات کا شکار تھی اور قحط سالی اور بدعنوانی نے حکومتی بُنیادوں کو کُھوکھلا کردیا تھا لیکن اِن میں کمیونسٹوں کے حوصلے بلند تھے ۔ منچوریا میں جاپانی حمایت یافتہ نئى حکومت کو چین کی کومنتانگ حکومت نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ عالمی سطح پر کسی بھی بڑی طاقت نے جاپانی جارحیت کو روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ چین نے لیگ آف نیشن سے مدد مانگی جس نے سنہ 1933 میں ایک تفتیشی کمیٹی مقرر کی ۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں جارحیت کی مذمت کی لیکن جاپان کو اشتعال دینے سے گریز کیا ۔ یہ تنظیم ، جاپانی جارحیت کو روکنے میں ناکام رہی اور اُسے ایک رُکن کی حثیت سے بھی برقرار نہ رکھ سکی ۔ برطانیہ اور فرانس نے کوئى کردار ادا نہیں کیا کیونکہ وہ دونوں ممالک اپنے معاشی اور سیاسی گرداب میں پھنس چکے تھے جب کہ امریکہ کُلی طور پربین الاقوامی کساد بازاری سے نبردآزما تھا ۔ عالمی برادری نے جاپان کی جانب سے کیے جانے والے بے دریغ قتل عام اور اپنی مرضی کی حکومت بنانے پر مزمت کی ۔ کہاجاتا ہے کہ یہیں سے جاپان اور امریکہ کے مابین اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی گئى بلکہ اِسے کسی بڑے ٹکراؤ کا پہلا قدم سمجھا جاتا ہے ۔ جرمنی اور جاپان نے روس کے بنائی ہوئی بین الاقوامی کمیونسٹ تنظیم کومنٹرن کے خلاف 25 نومبر 1936 کو اینٹی کومنٹرن معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت اگر روس جرمنی یا جاپان پر حملہ کرے گا تو دونوں ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ایک دوسرے سے مشاورت کریں گے ۔ دونوں مُلکوں نے روس کے ساتھ کسی بھی قِسم کا سیاسی معاہدہ نہ کرنے پر اتفاق کیا اور اِس کے علاوہ جرمنی نے جاپان کے زیر اثر مانچو کو، کو تسلیم کیا ۔ منچوریا کی لڑائى اور اِسی نوعیت کے دیگر واقعات نے جاپان اور چین کے مابین دوسری جنگ کی راہ ہموار کردی ۔ شنگھائى کے مارکو پولو پُل کے رونماء ہونے والے واقعہ کو بھی اس جنگ کی وجہ سمجھا جاتا ہے ۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ جون 1937 سے جاپانی افواج نے مارکوپولوپُل کے مغربی علاقے میں رات کی تاریکی میں فوجی تربیت جیسی سرگرمیاں بڑھادی تھیں ۔ چینی حکومت نے کہا کہ چونکہ اِس شو و غل سے مقامی آبادی متاثر ہورہی ہے لہذا ایسی سرگرمیوں کے بارے میں پہلے سے آگاہی دی جائے ۔ گو کہ جاپانی حکومت نے اس چینی درخواست سے اتفاق کیا تاہم 7 جولائى 1937 کی رات جاپانی افواج نے بغیر اطلاع دئیے ایک بار پھر اپنی سرگرمیاں شروع کیں جس پر علاقے میں متعین مقامی چینی فورسز چوکس ہوئیں کہ شاید جاپانی فوج کسی حملے کی تیاری کر رہی ہے ۔ لہذا ، اُنھوں نے متنبہ کرنے کیلئے ہوائى فائرنگ کی ۔ اِسی اثناء میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور اِس کی آواز دور تک سُنی گئى ۔ جب اُس علاقے میں متعین جاپانی فوجی اپنے رجمنٹل کمانڈر کو رپورٹ دینے میں ناکام ہوا تو میجر کیوناؤ ایچیکی کو شک ہوگیا تھا کہ اُس کا سپاہی، چینیوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔ جاپانی فوج نے چینی رجمنٹل کمانڈر کو فون کیا کہ وہ اپنا جوان ڈھونڈنے کی غرض سے علاقے کی تلاشی لینا چاہتے ہیں ۔ گو کہ مذکورہ فوجی مل گیا تھا لیکن پھر بھی جاپانی ملٹری انٹیلیجنس نے چینی جنرل چن دیچون سے یہی مطالبہ دوہرایا جس کے جواب میں کہا گیا کہ چونکہ فوجی سرگرمی بغیر اطلاع دیئے ہورہی تھی اس لیے وہ خود تلاشی لیں گے ۔ مگر جاپانی فوج بضد رہی کہ وہ خود ہی تلاشی لیں گے اور اُنہوں نے دو گھنٹے بعد الٹیمیٹم جاری کردیا ۔ 8 جولائى کی صبح ساڑھے 3 بجے جاپانی فوج کا قافلہ علاقے میں پہنچ گیا ۔ صبح 4 بجکر 50 منٹ پر دو جاپانیوں کو وانپنگ علاقے میں جانے کی اجازت دی گئى ۔ تلاشی کے دوران جاپانی فوج نے بکتر بند گاڑیوں سے مارکوپولو پُل پر حملہ کردیا ۔ چینی فوج کے کرنل جے شینگ وین نے اپنے سپاہیوں کو ہر صورت میں اس پُل کے دفاع کو حکم دیا ۔ دونوں اطراف سے کئى فوج مارے گئے ۔ اِس بڑھتی ہوئى کشیدگی نے بعد میں بڑی جنگ کی شکل اختیار کرلی ۔ اُس وقت کے جاپانی وزیراعظم کونوئىے کی حکومت نے چینیوں کو سزا دینے کیلئے چین کے دارالحکومت نانجنگ سمیت شمالی اور مشرقی ساحلی علاقوں پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ فوجی کاروائى کرتے ہوئے چینیوں سے ہتھیار ڈالنے کا کہا گیا لیکن اُنہوں نے انکار کردیا ۔ جاپانی وزیراعظم کو فتح حاصل کرنے کی اُمید تھی مگر یہ سب مشکل بنتا جارہا تھا کیونکہ چین میں قوم پرستی اور خود انحصاری کا جذبہ زور پکڑ چکا تھا ۔ چینیوں نے اس جنگ کو جنگ مزاحمت جاپان کے طور پر لے لیا تھا۔ جاپان پر الزام ہے کہ اُس نے نانجنگ پر قبضے کے دوران بے دریغ قتل عام کیا ۔ نانجنگ اس وقت چین کا دارالحکومت تھا ۔ ہزاروں عورتوں کی آب رویزی کی اور سینکڑوں ہزاروں لوگوں کا قتل کیا ۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قتل عام اس وقت سے شروع ہوئى جب جاپانی فوج نومبر کے وسط میں جیانگ سو میں داخل ہوئى اور یہ سلسلہ مارچ 1937 کے اؤاخر تک چلتا رہا ۔ مرنے والوں کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ مشرق بعید کیلۓ قائىم بین الاقوامی فوجی ٹربیونل کا اندازہ ہے کہ 2 لاکھ 60 ہزار افراد ہلاک ہوئے ۔ چین کے سرکاری اعداد و شمار میں یہ تعداد 3 لاکھ بتائى ہے جبکہ جاپان کے تاریخ دانوں نے ایک لاکھ اور دو لاکھ کے درمیان بتائى ہے ۔ جولائى 1937 میں جب بیجنگ کے قریب جنگ لڑی جارہی تھی تو اِس کے ساتھ ہی ایک ماہ بعد شنگھائى میں بھی لڑائى نے زور پکڑلیا ۔ جاپان مکمل طور پر اعلان جنگ نہیں کر رہا تھا کیونکہ اُسے برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے مداخلت کا خطرہ تھا ۔ جاپانی پراپیگنڈے میں چین کے خلاف جنگ کو جنگ مقدس کہا جارہا تھا ۔ اب وزیراعظم کونوئىے نے جنوب مشرقی ایشیا کیلئے ایک نئے آرڈر کا اجراء کیا ۔ یہ ایشیائى عوام پر سپریم جاپانی حکمرانی قائم کرنے کا منشور تھا ۔ دوسال کی مدت میں رونماء ہونے والے پے درپے واقعات کی وجہ سے امریکہ نے چین کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے جاپان سے مطالبہ کیا کہ وہ چین سے نکل جائے اور اسے تنہاء چھوڑ دے ۔ جب جاپان نے پوری طرح عمل درآمد نہیں کیا تو امریکہ نے جاپان کے ساتھ تیل اور لوہے کی تجارت روک دی ۔ جنگِ شنگھائى میں چین نے سخت مزاحمت کا مظاہرہ کیا ۔ چین اور جاپان دونوں کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا اور چینی افواج نے نان جینگ سے پسپائى اختیار کی لیکن تاثر یہ ملا کہ اب انہیں شکست دینا مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ اب چینی حکمت عملی یہ تھی کہ جنگ کو اس وقت تک طول دیا جائے جب تک امریکہ جنگ میں شامل نہ ہو ۔ جاپانی فوج کی پیش قدمی سست کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کیے جانے لگے مثلاً جاپانی فوج کو مشکلات میں ڈالنے کیلئے پانی کے ڈیم توڑدیئے گئے جس سے سیلاب آگیا تھا ۔ وہ جاپانی فوج کو اُس حد تک بڑھنے دے رہے تھے جہاں اُنہیں گھیرے میں لیکر حملہ کیا جائے اور اِس کی مثال انہوں نے سنہ 1939 کے چانگشا کی دفاع کے دوران پیش کی ۔ سنہ 1940 میں چین کی سرخ فوج نے ملک کے شمال میں ایک بڑا حملہ کیا اور ریلوئے لائنیں اُڑا دیں اور کوئلے کی بڑی کان تباہ کردی ۔ اب جاپانی فوج سخت مایوسی اور گومگو کی کیفیت میں تھی اور اُنہوں نے سب کو قتل کرو، لوٹو اور جلاؤ کی پالیسی اختیار کرلی اور وسیع پیمانے پر جنگی جرائم کیے ۔دوسری جانب جاپان کے سوویت یونین کے ساتھ بھی تعلقات خراب تھے اور دونوں ملکوں نے سنہ 1938 میں جھیل خسان کی لڑائى لڑی جس کی وجہ یہ تھی کہ جاپان نے مانچو کوو میں اس علاقے کو شامل کیا جس پر روس کا دعویٰ تھا ۔ لڑائى اس وقت شروع ہوئى جب جاپان نے سوویت یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ خاسان نامی جھیل کے مغرب اور پری موریئى کے جنوب میں واقع پہاڑوں سے اپنی سرحدی فوج ہٹا لے ۔ یہ علاقہ ولاڈیواسٹوک سے زیادہ دور نہیں ۔ روس نے یہ مطالبہ مسترد کردیا ۔ جاپانی فوج نے ھلکے اور درمیانی ٹینکوں کی مدد سے حملہ کیا اور روس نے بھی ٹینکوں اور آرٹرلی کی مدد سے فوری جوابی حملہ کردیا ۔ جاپان نے اپنی فوجی قوت بڑھانے کیلئے مزید کمک بھیجی لیکن کامیابی حاصل نہ ہوئى اور جاپانی فوجوں کو سوویت علاقائى حدود سے پیچھے دھکیل دیا گیا ۔ جاپان کو کامیابی نصیب نہیں ہوئى اور اُس نے نئى حکمت عملی کے ساتھ سوویت یونین پر ایک اور بھرپور حملہ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی ۔ جب جاپان نے مانچو کوو کی ریاست قائم کی تو اِس نئى ریاست اور منگولیا کے مابین خلخیان نامی دریا کو سرحد کی حد بندی قرار دیا ۔ اُس وقت کی قابض جاپانی فوج کے آئى جے اے ۲۳ ویں ڈویژن کو مُلک کی بہترین یونٹس میں سے شمار کیاجاتا تھا ۔ لڑائى اُس وقت شروع ہوئى جب 11 مئى 1939 کو منگول فوج کے گھوڑ سوار یونٹ کے تقریباً 90 سپاہی مانچو کوو کے متنازعہ علاقے میں داخل ہوئے ۔ مقامی فوج نے حملہ کرکے اُنہیں پسپا کردیا لیکن دو دِن بعد منگولوں نے بڑی تعداد کے ساتھ حملہ کیا جس کو روکنا مانچو کوو کی فوج کے بس کا کام نہیں تھا لہذا جاپانی فوج کی مدد طلب کی گئى ۔ جاپانی فوج کی آمد پر منگول تواُس علاقے سے نکل گئے تاہم 28 مئى کو سوویت اور منگول فوجوں نے مشترکہ طور پر حملہ کیا ۔ جاپانی فوج نے لیفٹینٹ کرنل یا اوزو آزوما کی قیادت میں مقابلہ کیا لیکن 8 افسروں اور 97 جوانوں کی ھلاکت کے بعد اُسے شکست ہوئى ۔ جاپانی فضائیہ نے منگولیا میں واقع سوویت یونین کے ہوائى اڈوں پر حملے کیے اور کئى جہاز مار گرائے لیکن یہ حملے ٹوکیو میں واقع شاہی جاپانی فوج کے ہیڈ کوارٹرکی اجازت کے بغیر کیے گئے تھے ۔ لہذا ، اطلاع ملنے پر مزید فضائى حملے نہ کرنے کا حکم جاری کیا گیا ۔ جون کے مہینے میں سوویت یونین کے نئے لیفٹینٹ جنرل گیورگی زوخوف پہنچے ۔ ماہ بھر سوویت اور منگول فوجوں کی دریائے نومونھان کے اِرد گرد کاروائیاں جاری رہیں ۔ دخل اندازوں کی سرکوبی کیلئے جاپانی لیفٹینٹ جنرل میچی تارو کو ماتسو بارا کو کاروائى کرنے کی اجازت دے دی گئى ۔ جاپان کی مختلف رجمنٹوں نے کئى محاذوں سے حملے کیے لیکن سوویت افواج نے سخت مزاحمت کی ۔ اِن جھڑپوں میں جاپانی فوج کے پانچ ہزار فوجی ھلاک ہوئے اور اسلحہ و گولہ بارود کی کمی محسوس ہونے لگی ۔ گو کہ اب جاپان کو 75000 فوجی اور سینکڑوں جہازوں کی قوت حاصل تھی تاہم جاپانی فوج نے کچھ وقت کیلئے پسپائى اختیار کی اور 24 اگست کو ایک بار پھر نئى صف بندی کرتے ہوئے تیسرے بڑے حملے کی منصوبہ بندی کی ۔ دوسری جانب سوویت اور منگول افواج نے ٹینک بریگیڈز، انفنٹری ڈویژن، کیولری، ائر ونگ اور 50,000 فوج کو حرکت دی ۔ دریائے خلخیان کے آس پاس مختلف محاذوں پر گھمسان کا رن پڑا ۔ مخالف فوجوں نے جاپانیوں کے مواصلاتی رابطے منقطع کرتے ہوئے گھیرے میں لیکر پے درپے حملے کیے ۔ بالاخر 31 اگست 1939 کو شکست جاپانی فوج کا مقدر بنی اور بچ جانے والے یونٹس نے نوموھان کے مشرق کی جانب پسپائى اختیار کی ۔ ایک اندازے کے مطابق اِس جنگ میں جاپان کے 45,000 جبکہ سوویت یونین کے 17,000 فوجی ہلاک ہوئے ۔اگلے دِن یعنی یکم ستمبر 1939 کو ہٹلر کی فوجوں نے پولینڈ پر فوج کشی کرکے جنگ عظیم دوئم کا آغاز کردیا ۔ جاری ####