History of Japan-05
Afridi
بحرالکاہل میں جنگی مہمات
سنہ 1942 میں جاپان کو بحرالکاہل میں اپنی طاقت منوانے میں کوئى خاص کامیابی نہ ہوئى لیکن اُس کے اتحادی، جرمنی نے یورپ اور دوسرے خطوں میں کئى کامیابیاں حاصل کرلی تھیں ۔ جرمن فوجوں نے جون میں لیبیا پر دوبارہ قبضہ کرلیا تھا لیکن نومبر میں برطانوی فوجوں نے ایک بار پھر اُنہیں شکست دی ۔ جرمن اور برطانوی فوجوں کے مابین شمالی افریقہ میں بھی جنگ ہورہی تھی کہ اِسی دوران اتحادی افواج نے چڑھائى کردی اور امریکی فوجیں الجیریا میں اُتار دی گئیں ۔ جرمنوں نے سینکڑوں ہزاروں یہودیوں کو وارسا سے تریبلنکا کے اذیتی کیمپوں میں منتقِل کرنا شروع کردیا ۔ برازیل نے بھی جرمنی اور اٹلی کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا تھا۔ جبکہ بحرالکاہل میں امریکی اور آسٹریلوی افواج نے میک آرتھرکی زیرِقیادت ، نیو گِنی میں گونا کے مقام پر لڑائى کا آغاز کردیا ۔
کوکودا ٹریک کی مہم جوئى
اِس سے پہلے ذکر ہوچکا ھے کہ جاپان، مورسبے بندرگاہ پر قبضے کا خواہشمند تھا تاکہ وہاں سے شمال مشرقی آسٹریلیا پر حملہ کرکے بحرالکاہل اور بحر ہند کے مابین روٹ پر کنٹرول حاصل کرسکے ۔ اِس سے پہلے جنگ کورل سی میں جاپان قِسمت آزمائى کرچکا تھا لیکن کامیابی حاصل نہ کرسکا اور جنگ مڈوے نے جاپانی بحریہ کی طاقت کو بڑی حد تک کمزور کردیا تھا لیکن پھر بھی جاپان اِس علاقے کی اہمیت کے پیش نظر اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ اتحادیوں کو بھی اس بات کا عِلم تھا کہ جاپانی فوج ایک بار پھر جنوبی بحرالکاہل کی جانب پیش قدمی کرسکتی ہے لہذا جنوب ۔ مغربی بحرالکاہل خطے کے اعلی اتحادی کمانڈر جنرل ڈگلس میک آرتھر کی قیادت میں نیو گینیا میں عسکری تیاریاں شروع کردی گئیں ۔ اتحادیوں کو اندیشہ تھا کہ جاپان، رابول کے اڈے سے جارحیت کرسکتا ہے ۔ یہ بھی معلوم تھا کہ اگر جاپانی افواج بوندا میں اُتریں گیئں تو کوکودا اور مورسبے بندرگاہیں خطرے میں پڑ جائیں گیں ۔ ایسے میں بندا اور کوکودا کا دفاع ضروری ہوگیا تھا ۔
کوکودا ، مورسبے بندرگاہ کے قریب واقع ایک ایسا ٹریک ہے جہاں دِن کے وقت زیادہ تر گرمی اور حبس جبکہ راتیں ٹھنڈی ھوتی ہیں ۔ سالانہ اوسطاً 5 میٹر یعنی تقریباً 16 فٹ بارش ہوتی ہے اور روزانہ 25 سنٹی میٹر یعنی 10 اِنچ بارش ایک عام سی بات ہے ۔ گھنے جنگلوں کی وجہ سے دشوار گزار چڑھائیاں اور گہری کھائیاں ہیں ، جس کی وجہ سے صرف پیدل ہی سفر کیا جاسکتا ہے ۔ رسد پہنچانا اور وہاں پائے جانے والے بے تحاشہ مچھروں کا مقابلہ کرنادل گردے کا کام سمجھا جاتا ہے ۔ ملیریا ، دستوں کی بیماری، گیلے کپڑے اور چپچپا جسم زندگی اجیرن کردیتا ہے ۔
جاپان کا منصوبہ تھا کہ وہ نیو گینیا اور سولمن جزائر کے قبضہ کیے ہوئے علاقے میں ایک بحری اڈہ تعمیر کرے جس کے ذریعے امریکہ اور آسٹریلیا کے مابین کسی بھی امداد کو روکا جاسکے ۔ جاپان کی حکمت عملی تھی کہ اس کی جنگل کی سخت تربیت یافتہ فوج ، میجر جنرل تومیتارو ہوریئے کی سرپرستی میں پاپوا کے شمالی ساحل پر واقع گونا اور بونا کے قصبوں کے قریب اتر کر کوکودا پر قبضہ کرلے گی اور پھر وہاں سے اوون سٹینلے رینج تک پہنچ جائے گی جہاں سے مورسبے بندرگاہ نشانے پر آجائے گی ۔
دوسرا حملہ پاپوا کے مشرقی حصے میں خلیج مائلنے سے کیا جائے گا جہاں جاپانی میرین فوج اتاری جائے گی کیونکہ وہاں پر امریکی اور آسٹریلوی فوجیں 28 جون سنہ 1942 سے ایک ائربیس تعمیر کرنے میں مصروف تھیں ۔ یہی اڈہ جاپان کیلئے فضائى اور بحری اڈے کے طور پر استعمال کرکے میجر جنرل ہورئیے، جاپانی فضائیہ اور سی بارن فوج کی قیادت کرتے ہوئے بندرگاہ مورسبے پر حملہ کرکے قبضہ کرلے گا ۔
جاپانیوں کے مقابلے میں آسٹریلوی فوجی تعداد میں زیادہ تھی لیکن جنگل کی لڑائى کیلئے تربیت، جدید اسلحہ اور وسائل کی کمی تھی ۔اکیس جولائى سنہ 1942 کو 1500 سے 2000 تک جاپانی فوج، پاپوا کے شمال مشرقی ساحل پر اُتر گئی اور بونا، گونا اور سانانندا کے مقامات پر اپنی تنصیبات کی تعمیر شروع کردی ۔ اگلے روز آسٹریلوی فوج کو جاپانیوں کی آمد کا عِلم ہوگیا اور اِس کی اطلاع جنرل میک آرتھر اور جنرل بلامے کو دی گئى ، جس پر دشمن کو مصروف کرنے کی ہدایت جاری کی گئیں ۔ رات کو 40 فوجی ، جاپانی فوج پر حملہ کرکے جنگل میں واپس آگئے ۔ انہی سلسلہ وار جھڑپوں کے دوران دونوں جانب سے افواج کی مختلف بٹالینز جمع ہوتی گئیں ۔ انتیس جولائى 1942 کو علی الصبح ڈھائى بجے 500 جاپانیوں پر مشتمل ایلیٹ فورس نے بھاری مشین گنوں سے مسلح ہوکر آسٹریلن فوج پر بھرپور حملہ کرکے کوکودا کے رن وے پر قبضہ کرلیا ۔ اس شکست کے بعد آسٹریلیا نے اپنی نفری بڑھادی ۔
آسٹریلوی فوج کے39 ویں انفنٹری بٹالین کے کمانڈرلیفٹینٹ کرنل رالپ ہونر نے کوکودا کا علاقہ واپس لینے کا فیصلہ کیا لیکن دو دن کی لڑائى میں اُسے کامیابی نصیب نہ ہوئى ۔ چھبیس اگست تک جاپانی فوج کی تعداد ساڑھے تیرہ ہزار تک پہنچ گئى ۔ اب ان کا ہدف بندرگاہ مورسبے تھا ۔ اگرچہ جاپانی اور آسڑیلوی فوجوں کے مابین اسوراویا ، بریگیڈ ہِل،آوریبیوا اور ایمیتا میں بھی شدید چھڑپیں ہوئیں جس میں آسٹریلیا کو سخت جانی نقصان پہنچایا گیا لیکن طول پکڑتی ہوئى لڑائى جاپان کے حق میں نہیں تھی کیونکہ یوں جنرل ھورئیے کا بندرگاہ مورسبے پر قبضے کا شیڈول متاثر ہورہا تھا۔
سات اگست 1942 سے 9 فروری 1943 تک کی مدت میں جنگ گوادال کینال لڑی گئى ۔ یہ بحرالکاہل میں لڑی گئى شدید جنگوں میں سے ایک تھی جس میں بری، بحری اور فضائى افواج نے حصہ لیا جو جاپان کے خلاف اتحادی افواج کی پہلی جارحیت تھی ۔سات اگست سے اتحادی افواج جن میں اکثریت امریکیوں کی تھی، گوادال کینال، تولاگی، اور جنوبی سولومن جزائر کے فلوریڈا میں انگیلا سولے علاقے پر اُترنا شروع ہوئیں تاکہ امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مابین رابطے توڑنے کی جاپانی منصوبے کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے ۔ اتحادی چاھتے تھے کہ گوادال کینال اور تولاگی کو مرکزی اڈوں کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جاپان کے راباول اڈے کو ختم کردیا جائے ۔ اس وقت اتحادیوں کی تعداد، جاپانیوں سے کہیں زیادہ تھی ۔ اتحادیوں نے جاسوسی ذرائع سے معلوم کرلیا تھا کہ جاپانی فوج، ھینڈرسن کے ہوائى اڈے کو دوبارہ قبضے میں لینے کی تیاری کر رہی ہے ۔ جاپانی فوج نے اپنی قوت بڑھانے کیلئے مزید کُمک طلب کی تو یاماموتو نے 38 انفنٹری ڈویژن سے خوراک ، ایمونیشن اور دیگر ضروری سازوسامان سمیت ، گیارہ ٹرانسپورٹ جہازوں کے ذریعے 7,000 فوجی روانہ کیے ۔
اتحادیوں اور جاپانی افواج کے مابین 25 ستمبر کی شدید چھڑپوں میں تین ہزار جاپانی فوجی ھلاک ہوئے ۔ اُن کی رسد کی فراہمی بھی متاثر ہورہی تھی اور فوجی مسلسل لڑائى لڑکر تھک گئے تھے ۔
نومبر1942 کے دوسرے ہفتے سے جاپانی فوج نے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے کئى حملے کیے لیکن وہ ہنڈرسن فیلڈ کو ناقابل استعمال بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ اتحادیوں نے فیلڈ کی اہمیت کے پیش نظر اِس کا بھرپوردفاع کیا ۔ اِن جھڑپوں کے دوران دونوں افواج نے ایک دوسرے کے کئى بحری جہاز ڈبوئے، طیارے مار گرائے اورکئى فوجی ھلاک کردئیے ۔
جاپانی فوج کیلئے مناسب مقدار میں خوراک کی فراہمی کا مسئلہ مسلسل درپیش تھا اور وہ اتحادی افواج کی تباہ کن بمباری کی وجہ سے وسطی سولومن میں نئے اڈے تعمیر کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے ۔ بالاخر جاپانی بحریہ نے کافی غور و خوض کے بعد 12 دسمبر 1942 کو گوداکینال کی مہم ترک کرکے واپسی کا فیصلہ کیا اور جنرل ھاجیمے سوگی یاما اور ایڈمرل اوسامی ناگانو نے ذاتی طور پر شہنشاہ ھیروھیتو کو اِس فیصلے سے آگاہ دی ۔
جاپانی فوج جس علاقے میں برسرپیکار تھی یہ ایک کٹھن اور دشوار گزار علاقہ تھا ۔ کئى سپاہی ملیریا اور دست کی بیماری میں مبتلا ہوچکے تھے اور خوراک کی شدید قِلت تھی ۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وہ جڑی بوٹیاں اور پتے کھانے پر مجبور ہوگئے تھے ۔
جاپان اور امریکہ کے مابین سلسلہ وار بحری جنگوں نے دونوں ممالک کے اعصاب کو تھکا دیا تھا ۔ دونوں ملکوں نے بہترین بحری طاقت کا مظاہرہ کیا تھا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اُس وقت جاپان کی بحری قوت کا مقابلہ کرنا صرف امریکہ ہی کے بس کا کام تھا ۔ امریکہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر جاپان کو شکست سے دوچار کرنا ہے تو اپنی بحری قوت کو مزید فروغ دینا ہوگا اور اِس مقصد کیلئے فروری سے نومبر 1943 تک کی درمیانی مدت میں بحری قوت بڑھانے پر بھرپور توجہ دی گئى ۔ وسیع پیمانے پر بحری بیڑے اور بحری جنگی جہازوں کی تیاری سے امریکہ کو جاپان پر سبقت حاصل ہوگئى جبکہ جاپانی بحریہ کی کمر خاصی حد تک کمزور ہوچکی تھی ۔
18 اپریل 1943 کو جاپانی بحریہ کی تاریخ کا ایک المناک واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ جب امریکہ نے ایک جاپانی پیغام کو ڈى کوڈ کرتے ہوئے معلوم کرلیا کہ ایڈمرل یاماموتو فضائى پرواز کریں گے لہذا امریکی طیاروں پی ۔ 38 کے ایک چھوٹے گروپ نے اڑان بھر کر اس بمبار طیارے کو اپنے گھیرے میں لیا جس میں ایڈمرل یاماموتو سوار تھے ۔ طیارے کو مار گرایا گیا اور یوں بحرالکاہل کے ایک تاریخی جنگجو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ۔
ایڈمرل یاماموتو، 4 اگست 1884 کو ناگااوکا میں پیدا ہوے تھے ۔ اُنہوں نے سنہ 1919 سے 1921 تک ہاورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور سنہ 1925 میں ایک سفارتی مشِن پر امریکہ میں رھ چکے تھے ۔ وہ امریکہ پر حملے کے مخالف تھے تاہم اسے حکومتی فیصلے کے مطابق پرل ہاربر پر حملے کی منصوبہ بندی کرنی پڑی ۔
جنوری 1943 سے موسم گرما 1944 کے دوران نارمنڈی میں اتحادیوں کے قدم جمانے تک کی مدت کو جنگ عظیم دوئم کا وسطی عرصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جارحانہ پالیسی اختیار کرلی ہوئى تھی ۔ امریکی فوج اور فوجی سازوسامان کی ترسیل میں بہت اضافہ ہوچکا تھا ۔ سوویت یونین نے جرمن جارحیت سہنے کے بعد جوابی کاروائیاں شروع کردی تھیں ۔ قوت توازن امریکہ اور سویت یونین کے حق میں جارہا تھا ۔ سویت یونین اور مغربی یورپ کے سروں پرخطرے کی تلوار اب بھی لٹک رہی تھی ۔
چودہ جنوری 1943 میں دس روز کیلئے کاسابلانکا کانفرنس منعقد ہوئى جہاں برطانوی اور امریکی مندوبین کے مابین یورپ اور بحرالکاہل سے متعلق پالیسی امور پرکئى اختلافات سامنے آئے ۔ امریکہ، بحرالکاہل میں جاپان کے خلاف کاروائی کی اہمیت پر زور دے رہا تھا جبکہ برطانیہ بحیرہ قذوین میں حکمت عملی مرتب کرنے کا خواہاں تھا ۔ امریکہ چاہتا تھا کہ جاپان کے خلاف اپنے حالیہ فتوحات کے بعد اپنے دشمن پر گرفت مزید مضبوط کرلے ۔
امریکی جنرل مارشل سمجھتا تھا کہ جاپان کی کسی بھی سرگرمی کا بروقت جواب دینے کیلئے بڑے بحری بیڑے، مضبوط فضائیہ اور زیادہ قوت کی حامل زمینی فوج کی ہر وقت موجودگی ضروری ہے ۔ اگرچہ جاپان اب دفاعی پوزیشن میں چلا گیا تھا تاہم اس کے بحری بیڑے سے امریکہ کے مغربی ساحل پر فضائى حملوں کا خدشہ بدستور موجود تھا کیونکہ امریکہ کو علم تھا کہ جاپانی ہتھیار ڈالنے کا نظریہ نہیں رکھتے اور وہ آخری شکست تک اپنی جارحیت جاری رکھیں گے ۔
کاسابلانکا کانفرنس میں اتفاق کیا گیا کہ تمام دشمن قوتوں یعنی ایکسیز پاورز سے کہا جائے گا کہ وہ غیر مشروط طور پرہتھیار ڈال دیں ۔ اسی کانفرنس میں سوویت یونین کی سسلی اور اٹلی پر چڑھائى میں مدد دینے پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئى ۔
یورپ میں حالات کچھ یوں بدلتے جارہے تھے کہ 31 جنوری 1943 کو جرمن فوج نے سٹالن گراڈ میں ہتھیار ڈال دیئے تھے کیونکہ نومبر سے جاری محاصرے کی بناء پر بھوک اور غذائى کمی سے ان کی حالت بگڑ چکی تھی ۔ ایک اندازے کے مطابق، بھوک اور خراب موسمی حالات سے 90 ہزار سے زیادہ جرمن فوجی ہلاک ہوچکے تھے ۔ جرمن فیلڈ مارشل وون پاولس کے پاس اس کے سوا کوئى چارہ نہ تھا کہ وہ بھوک کی شکار اپنی فوج کو ہتھیار پھینک دینے کا کہیں ۔ ادھر جرمنی پر اتحادیوں کی دِن رات فضائى بمباری جاری تھی ۔ 12 ستمبر 1943 کو اتحادی افواج ، اٹلی میں داخل ہوئیں ۔
جنگ خلیج لیٹی
اگر اتحادیوں کی جانب سے ایک طرف یورپ میں جنگ تیز ہوچکی تھی تو دوسری طرف مشرق بعید میں بھی جاپانیوں اور امریکیوں کے مابین مختلف محاذوں پر جنگ شدت اختیار کرچکی تھی ۔ امریکی زیر قیادت اتحادی فوج اور جاپانیوں کے مابین فلپائن کے جزائر لیٹی، سامار اور لوزون کے آس پاس پانیوں میں 23 سے 26 اکتوبر 1944 تک جنگ لیٹی لڑی گئى ۔
امریکہ نے 20 اکتوبر کو اپنی فوج جزیرہ لیٹی پر اِس وجہ سے اُتاردی تاکہ جاپان کو اپنے جنوب مشرق ایشیاء کے زیر قبضہ علاقوں سے منقطع کیا جاسکے اور خصوصاً تیل کی ترسیل روک دی جائے ۔ شاہی جاپانی بحریہ نے تقریباً اپنے تمام بحری جہازوں کو اتحادی افواج کے خلاف برسر پیکار کردیا تاہم وہ فتح حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ امریکہ کے تیسرے اور ساتویں بحری بیڑے نے جاپانی حملوں کو پسپا کردیا تھا ۔ جاپان کو اتنا بھاری نقصان اُٹھانا پڑا کہ وہ دوبارہ متوازی طاقت کا حملہ کرنے کی طاقت نہ دکھا سکا۔ اُس کے بڑے بحری جہازوں کے پاس تیل کی کمی تھی جس کی وجہ سے وہ بحرالکاہل کی بقیہ جنگوں کے دوران اپنے اڈوں پر ہی رہے ۔
خلیج لیٹی میں چار بڑے معرکے ہوئے جن میں بحر سیبویان، آبنائے سوریگاؤ، کیپ اینگانو اور سامار کی لڑائى شامل ہے ۔ بحرالکاہل مہم کے دوران امریکا اور فلپائن کی فوجوں نے جاپانی فوج کے خلاف جنگ لیٹی لڑ کر فتح حاصل کی ۔ یہ جنگ سترہ اکتوبر سے اکتیس دسمبر تک لڑی گئى جس سے تقریباً 3 سالہ جاپانی قبضے کا خاتمہ ہوگیا ۔
فلپائن ، جاپان کیلئے ربڑ کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ تھا ۔ اِس کے علاوہ بورنیو اور سوماترا کے جانب سمندری گزرگاہوں پر بھی جاپان کا کمانڈ تھا جہاں سے اُسے پیٹرولیم کی ترسیل ہوتی تھی اِس لیے فلپائن پراپنی گرفت مضبوط رکھنا اُس کیلئے بہت اہمیت کا حامل تھا ۔
لیٹی پر فوجی چڑھائى کرنے کیلئے امریکی جنرل میک آرتھر کو بری، بحری اور فضائیہ کا سپریم کمانڈر بنایا گیا ۔ امریکی اور اتحادی افواج، مشہور زمانہ ساتویں بحری بیڑے پر مشتمل تھیں ۔سات سو ایک بحری جہازوں میں سے 157 بحری جنگی جہاز تھے اس کے علاوہ بری فوج میں مختلف کیولریز اور انفنٹری ڈویژنز شامل تھیں ۔ سترہ اکتوبر کو اتحادی افواج نے بارودی سرنگوں کی صفائى شروع کی اور لیٹی کے اردگرد مختلف چھوٹے جزائر کی جانب پیش قدمی کا آغاز کیا ۔ بیس اکتوبر کو مسلسل چار گھنٹوں کی بحری گولہ باری کے بعد ، اتحادی ساحلی علاقے میں اُترنا شروع ہوئے اور اِسی دوران جاپانی فوج سے جھڑپیں چھڑ گئیں ۔ کئى شب و روز سخت لڑائى کے بعد دونوں اطراف سے بھاری جانی نقصان ہوا ۔ جوبیس اکتوبر کو گھمسان کی فضائى جنگ ہوئى اور دِن رات کی دوطرفہ بمباری مزید چار روز تک جاری رہی ۔ جاپان نے اپنی قوت بڑھانے کیلئے مزید 34 ہزار فوجیوں اور 10,000 ٹن دیگر سازوسامان کی کُمک سپلائى کی ۔ آٹھ نومبر 1944 کو طوفان آیا اور موسلادار بارش ہوئى ۔ تیز جھکڑ چلنے سے درخت جڑوں سے اکھڑ گئے اور بارش سے مٹی کے تودے گرنے لگے ۔ لڑائى ، اب ساحل سے پہاڑوں تک پھیل گئى تھی ۔ اگرچہ جاپانی فوج نے اتحادی افواج کی سخت مزاحمت کی اور اِس دوران کئى حملوں کو پسپا کیا تاہم 10 دسمبر کو اتحادی افواج اورموک شہر میں داخل ہوگئیں ۔ جاپانی فوج کی قوت آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جارہی تھی ۔ لہذا انہوں نے فیصلہ کن جنگ لڑنے اور اتحادی افواج کو بھرپور نقصان پہنچانے کیلئے کامیکازے پائلٹوں کے ذریعے خودکش حملے شروع کیے ۔ اُنہوں نے کئى بحری جہازوں کو تباہ کیا ، جن میں آسٹریلیا کا ایک بحری جہاز ایچ ایم اے ایس آسٹریلیا بھی شامل تھا جس میں 30 آسٹریلوی ہلاک اور 64 زخمی ہوئے ۔
اکتیس جنوری 1945 کو امریکی فوج نے جنوبی لوزون پر اُتر کر منیلا کی جانب پیش قدمی کی ۔
جاپان پر فضائى حملے
اگر اتحادی ایک جانب فلپائن میں جاپانیوں سے لڑ رہے تھے تو دوسری جانب اُنہوں جاپان پر بھی فضائى بمباری شروع کردی ہوئى تھی اور اِن کاروائیوں میں امریکی فضائیہ کے بی ۔ 29 طیاروں کو نہایت کارآمد سمجھا جاتا تھا کیونکہ اِس میں 20,000 پونڈ بم لے جانے کی صلاحیت تھی اور یہ 2000 میل تک کا راونڈ ٹریپ طے کرسکتا تھا ۔ اِس طیارے نے جاپان میں اسلحہ فیکٹری پر حملہ کرنے کیلئے پہلی پرواز 15 جون 1944 کو چین سے کی ۔ یہ اپریل 1942 کے ڈولٹل فضائى حملے کے بعد جاپانی سرزمین پر دوسرا فضائى حملہ تھا ، جو جاپان پر سٹرٹیجیک بمبارمنٹ کی مہم کا باقاعدہ آغاز تھا ۔ آپریشن میٹرھارن کے نام سے حکمت عملی طے کی گئى تھی کہ بھارت اور چین میں موجود اڈوں سے جاپانی سرزمین اور جاپان کے چین اور جنوب ۔ مشرقی ایشیاء میں موجود اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ تاہم بعد میں 1944 کے اواخر میں امریکی طیاروں نے ماریانا جزائر سے فضائى حملے شروع کردئیے ۔امریکیوں کا خیال تھا کہ شمال مغربی بحرالکاہل میں واقع چھوٹے جزیروں سے فضائى بمباری زیادہ آسان اور سود مند رہے گی ۔ان میں سئپن، تینیان اور گوام کے جزیروں کو خاص اہمیت حاصل تھی ۔ دراصل یہ جزیرے جاپان کے زیرقبضہ تھے اور مئى 1943 میں امریکی بحریہ کے ایڈمرل ارنیسٹ کنگ نے اِسے فتح کرنے کی تجویز دی تھی ۔
وقت گذرنے کے ساتھ امریکی فوج کا یہ احساس مضبوط ہونے لگا کہ بی ۔ 29 طیاروں کیلئے اِن جزیروں پر رن وے کی تعمیر سے حملوں میں آسانی رہے گی ۔ چنانچہ گیارہ جون 1944 کو ان جزائر پر مسلسل چار روز تک بحری اور فضائى حملے کیے گئے ۔ ایک اندازے کے مطابق کئى ہفتوں تک جاری لڑائى میں 3,000 امریکی جبکہ 24,000 جاپانی ہلاک ہوئے ۔ تئیس جولائى تک امریکہ نے تینوں جزائر پر قبضہ کرلیا تھا جہاں سئپن جزیرے پر بی ۔ 29 طیاروں کیلئے فوری طور پر ائرفیلڈ کی تعمیر شروع کی گئى اور 27 اکتوبر 1944 کو اِس مقام سے جاپانی تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کردیا ۔
اب جاپانی سرزمین کی تباہی کا آغاز ہو چکا تھا ۔ امریکی فضائیہ نے اپنے حربے بدلتے ہوئے وسیع پیمانے پر بربادی کرنے کی حکمت عملی اختیار کرلی ہوئی تھی ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 9 اور 10 مارچ 1945 کی شب 335 امریکی بی ۔ 29 طیارے فضا میں بلند ہوئے جن میں 279 طیاروں نے تقریباً 1700 ٹن بم برسائے ۔ اِن میں 14 طیارے لاپتہ ہوئے جبکہ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ بتائى جاتی ہے تاہم بعد میں کیے گئے امریکی سروے میں یہ تعداد 88,000 بتائى گئی ہے ۔ علاوہ ازیں 41 ہزار افراد زخمی جبکہ دس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے تھے ۔
یورپ میں چار سے گیارہ فروری 1945 تک یالٹا کانفرنس منعقد کی گئى جس میں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ ، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور سوویت یونین کے سربراہ جوزف سٹالن نے شرکت کی ۔ گو کہ اِس سربراہ کانفرنس میں زیادہ تر یورپ کے معاملات پر غور کیا گیا ، البتہ سٹالن نے اتفاق کیا کہ وہ جرمنی کے شکست کے 90 دن بعد جاپان کے خلاف جنگ میں شریک ہوگا ۔
اوکیناوا پر قبضہ
امریکہ نے نہ صرف ٹوکیو پر بے دریغ بمباری کی بلکہ کئى دیگر شہروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں فوجی تنصیبات کی تباہی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر عام شہری بھی ہلاک ہوئے ۔ اب امریکی فوج ، جاپانی سرزمین پر اترنے کی منصوبہ بندی کرنے لگی اور اس مقصد کیلئے پہلے اوکیناوا کا انتخاب کیا گیا ۔ اوکیناوا ایک جزیرہ ہے جو جاپان کے مین لینڈ سے 340 میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اتحادی فوجوں نے اِس علاقے پر قبضہ کرکے اِسے جاپان پر بھرپور جارحیت کرنے کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔
امریکی افواج نے اترنے سے پہلے اوکیناوا پر 7 روز تک ہزاروں آرٹلری شیلز اور راکٹ فائر کیے اور بے دریغ فضائى بمبارکی ۔ امریکی فوج نے پہلے ھاگوشی اور چنتان کے ساحلی علاقوں پرفوج اُتارنے کا فیصلہ کیا ۔ بحرالکاہل کی سب سے خوفناک جنگ چھڑنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ امریکہ نے اپنے اِس مشن کو آئس برگ کا نام دیا تھا ۔ حملہ آور امریکیوں کی تعداد ایک لاکھ 83 ہزار تھی جبکہ اپنی سرزمین کی دفاع کیلئے 77,000 جاپانی موجود تھے جن کی قیادت لیفٹینٹ جنرل میتسورو اوشی جیما کر رہے تھے ۔
یکم اپریل 1945 کو پو پھٹنے سے پہلے جب پہلی بار 60,000 امریکی فوجی اُترے تو اُنہیں کسی قِسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا کیونکہ جاپانی فوج نے مکمل جنگ لڑنے کے بجائے دفاعی حکمت عملی اختیار کی ہوئى تھی ۔ اِس سے پہلے کئى جنگوں میں جاپانی فوج بے دھڑک لڑکر جان و مال اور وقت کا ضیاع کرچکی تھی اِسلئے روایتی حکمت عملی تبدیل کی گئى ۔ جاپانی فوج نے اپنے آپ کو خفیہ رکھنے کیلئے غاریں اور خندقیں کھودی تھیں ۔ اوکیناوا میں بارش اور بادلوں سے دھند چھائى ہوئى تھی اور دور علاقہ صاف نظر نہیں آرہا تھا ۔
جاپانی فوج کے خود کش حملہ آور طیاروں کامی کازے نے چھ اپریل کو 193 طیاروں سے ساحل پر موجود امریکی بحریہ پرجوابی حملہ کیا ، جس میں چھ بحری جہاز ڈوبے ، سات کو شدید اور چار دیگر کو کم نقصان پہنچا ۔ جاپانی فوج نے اتحادی بحری جہازوں پر حملہ کرنے کیلئے کائتن تارپیڈو بھی تیار کیے تھے ۔ کائتن کا مطلب ہے ، جنت کا رُخ ۔
دوسری جانب اتحادی افواج کی قوت کم ہونے کے بجائے بڑھتی جارھی تھی ۔ جاپانی افواج نے اپنے سب سے بڑے بحری جہاز یاماتو، ایک کروزر اور 8 تباہ کن بحری جہازوں کو خود کش مشن پر روانہ کیا ۔ اِس آپریشن کو تن گو ساکوسین کا نام دیا گیا تھا اور ایڈمرل سیچی ایتو کو اِس مشن کی کمانڈ دی گئى ۔ فورس کیلئے حُکم تھا کہ وہ پہلے ساحل پر موجود اتحادی بحریہ پر حملہ کرے اور پھر ساحل پر اتری ہوئى امریکی فوج سے پنجہ آزمائى کرے ۔
اتحادی افواج کسی بھی جاپانی حملے کے خطرے کے پیش نظر بہت چوکس تھیں اور جونہی جاپانی فوج اپنے حدود سے روانہ ہوئى ، اتحادی افواج کی آبدوزوں نے اُسے معلوم کرکے اپنے کمانڈ کو فوری اطلاع دی ۔ اتحادی جنگی طیاروں نے بغیر کسی وقت ضائع کیے فضائى حملہ کردیا ۔ اِس حملے میں 300 طیاروں نے حصہ لیا اور مسلسل دو دِن بمباری کرکے جاپان کے دُنیا کے بڑے بحری جنگی جہاز کو اوکیناوا پہنچنے سے قبل 7 اپریل 1945 کو ڈوبو دیا ۔ اِس حملے میں کروزر یاھاگی اور چار دیگر جنگی بحری جہاز بھی تباہ ہوئے ۔ ایک اندازے کے مطابق اِس حملے میں ایڈمرل ایتو سمیت جاپانی شاہی بحریہ کے عملے کے 3700 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔
اتحادی افواج نے وسطی اور شمالی جانب سے پیش قدمی شروع کی ۔ جاپانی فوجوں نے مزاحمت شروع کی تو اتحادیوں نے جنوب کی طرف سے بھی اپنی فوجوں کو حرکت دی ۔ کئى روز کی خونریز جھڑپوں کے بعد اتحادی افواج نے شمالی اوکیناوا کے کئى حصوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب حاصل کیں ۔ شمال کے ساتھ ساتھ جنوب کی جانب بھی گمسان کی لڑائى ہورہی تھی اور جاپانی افواج ہرخطے پر سخت مزاحمت کا مظاہرہ کررہی تھیں ۔ ہر طرف مشین گنوں کی تھڑ تڑاہٹ ، طیاروں کی گھن گرج اور اور توپوں کے گولوں کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔ کہیں کسی کی لاش تو کہیں کوئى زخموں سے چور پڑا تھا ۔ جاپانی فوج اب بھی غاروں اور خندقوں سے اپنی سرزمین پر آئى ہوئى اتحادی فوج پر پے در پے حملے کر رہی تھی ۔ بارہ اپریل کو جاپانی فوجوں نے امریکی فوج کے پورے فرنٹ پر حملہ کردیا ۔ اب کی بار جاپانیوں نے منظم انداز میں بھاری حملہ کردیا تھا اور وہ استقامت کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ اِس موقع پر انتہائى سخت دست بدست لڑائى چھڑ چکی تھی ۔ چودہ اپریل کو جاپانیوں نے ایک اور بھر پور حملہ کیا جس سے امریکیوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ رات کی تاریکی میں جاپانی حملے اُن کیلئے تباہ کُن ثابت ہورہے ہیں کیونکہ جاپانی فوج نے خوفناک شکل اختیار کرلی ہوئی تھی ۔
امریکہ کی 27 ویں انفنٹری ڈویژن نے اوکیناوا کے مغربی ساحل سے پیش قدمی شروع کی ۔ امریکی جنرل ھوج نے 9 اپریل کو بھاری ہتھیاروں سے ایک بڑا حملہ کردیا ۔ دوسری جانب بحری جنگی جہازوں، کروزر اور تباہ کُن جہازوں نے اپنی فضائیہ کے ساتھ مل کر جاپانی فوج پر بے تحاشہ گولہ باری کی اور بے دریغ بم برسائے ۔ نیپام بموں ، عام بموں، راکٹوں اور مشین گنوں کے مسلسل حملے سے جاپانی فوج کے حوصلے اب ھچکولے کھانے لگے ۔ اگرچہ اِس دوران جاپانیوں نے ٹینکوں کے ایک بڑے حملے کو ناکام بناتے ہوئے 22 ٹینکوں کو تباہ اور ساڑھے سات سو امریکیوں کو ہلاک کردیا تھا ۔ 4 مئى کو جاپانی فوج نے جنرل اوشی جیما کے زیرِقیادت ایک اور جوابی حملہ کیا۔ یہ بحری حملہ ساحل پر موجود امریکی فوج کی پشت پرکیا گیا جس میں 13 ہزار روانڈ فائر کیے گئے تاہم امریکہ کے بروقت اور موثر جواب سے یہ حملہ ناکام بنادیا گیا ۔
مئی کے اواخر میں مون سون کی بارشیں شروع ہوئیں جس کی وجہ سے کیچڑ اور پانی نے جنگی کاروائیوں سمیت زخمی فوجیوں کیلئے مہیا کی جانے والی طبی امداد میں روکاوٹیں پیدا کرنا شروع کردیں ۔ سیلاب سے بھرے راستوں سے زخمی فوجیوں کو نکالنا انتہائى مشکل ہوگیا تھا ۔
جاپانی فوج پر چونکہ یہ حقیقت آشکارا ہورہی تھی کہ اتحادی افواج کے مقابلے میں اُن کی قوت کمزور ہے لہذا مارچ ہی میں اوکیناوا میں جاپانی کمانڈ نے اندازہ لگالیا تھا کہ اب ایشیما ائرفیلڈ اور ملٹری کمپلیکس کا دفاع مشکل ہوتا جارہا ہے اِسلیے جزیرے پر موجود تمام ائرفیلڈز کو تباہ کرنے کا حُکم صادر کیا گیا تاکہ اُن کے فوجی تنصیبات دشمن کے ہاتھ نہ آئیں ۔ تاہم ماہِ مئى میں جاپانی فوج نے اپنے فضائى حملے جاری رکھے بلکہ 20 مئى کو 35 جاپانی طیاروں نے بروقت حملہ کیا ۔ ستائیس اور اٹھائیس مئى کی شب مطلع صاف تھا اور چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رھا تھا کہ اِس دوران جاپانی فضائیہ نے 2 اور 4 طیاروں کی گروپوں کی شکل میں 56 بار حملے کیے اور ایک اندازے کے مطابق اِن حملوں میں 150 طیاروں نے حصہ لیا اور اِسی رات جاپانی خودکش ہوابازوں کامیکازے نے 9 امریکی بحری جہازوں کو تباہ کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اوکیناوا کی جنگ میں 896 بار فضائى حملے کیے گئے جس میں تقریباً 4000 جاپانی طیاروں نے حصہ لیا ۔
جاپانی فوج نے شورے کے محاذ سے پسپائى کی حکمت عملی اختیار کی کیونکہ کونیکل پہاڑ کے مشرقی اور جنوبی حصوں پرجاپانی دفاعی پوزیشن کمزور پڑنے سے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ یا تو آخری دم تک تمام وسائل کے ساتھ لڑاجائے اور یا پھر انخلاء کیا جائے ۔ جنرل اوشی جیما نے اِس صورت حال پر غور کرنے کیلئے شورے قلعے میں اجلاس بلایا جہاں مختلف پہلووں پر غور کیا گیا اور آخری فیصلہ یہ تھا کہ جنوب کی جانب انخلاء کیا جائے ۔ یہ انخلاء بہت منظم اور خفیہ انداز میں تھا اور کئى روز تک امریکی فوج اپنے جاسوس طیاروں سے مسلسل نگرانی کے باوجود معلوم نہ کرسکی کہ جاپانی فوج وہاں سے نکل چکی ہے ۔
اوکیناوا میں 5 جون کو بارشوں کا سلسلہ تھم گیا تھا ۔ نئے دفاعی علاقے میں اوشی جیما کو منتقل ہوئے کئى دِن گزر چکے تھے لیکن اسلحے کی قلت اور مواصلاتی رابطوں میں پیش آنے والی مشکلات سے فوج کی کارکردگی پر اثر پڑ رہا تھا اور جب وہ اپنی فوج کے ہمراہ شورے سے منتقل ہورہے تھا تو اُس وقت اُن کے پاس صرف 20 دِن کا راشن موجود تھا ۔ کہتے ہیں کہ انخلاء کے وقت جن زخمی فوجیوں کو ساتھ نہیں لے جایا جاسکا اُنہیں مارفین کا انجیکشن لگا کر خود ہی ہلاک کیا گیا یا اُنہیں وہیں چھوڑ دیا گیا تھا ۔
اٹھارہ جون کی شام جنرل اوشی جیما نے جاپانی فوج کے وائس چیف آف سٹاف کوانابے تورا سیرو اور دسویں ایریا آرمی آن تائیوان کے کمانڈر آندو ریکیچی کے نام الوداعی پیغام بھیجا اور پیغام کے آخر میں چند اشعار رقم کیے کہ :
جزیر ے کی سرسبز و شاداب گھاس
جو سو کھی ہے خزاں کے انتظار میں
پھرسے لے جنم
ہمارے معززوطن کی بہاروں میں
اُنہوں نے19 جون کو آخری آرڈر جاری کیا اور اپنی زیرِقیادت تمام یونٹوں کی بہادری اور حوصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اسلحے اور مواصلاتی رابطوں کی انتہائى کمی ہے لہذا جو جہاں ہے وہیں پر اپنی حکمت عملی کے مطابق صورت حال کا مقابلہ کرے اور اپنے کسی سینئر افسر کا انتظار نہ کرے ۔ اُنہوں نے حُکم دیا، آخری دم تک لڑو ۔ اُن کے آخری حکم میں جاپانی فوج کو ہتھیار ڈالنے کا کوئى حکم نہیں تھا ۔
اب جاپانی فوج نے بکھر کر گوریلہ جنگ لڑنی شروع کرلی تھی چونکہ اُنہیں اپنے جنرل نے ہتھیار ڈالنے کا حکم نہیں دیا تھا لہذا جاپانی فوج کے سامنے دو راستے تھے کہ یا تو لڑکر مرا جائے یا خودکشی کرلی جائے ۔ امریکی فوج شورے پر قبضے کے بعد ناھا کے ائر فیلڈ پر بھی کنٹرول حاصل کرچکی تھی اور جنوب کی جانب پیش قدمی کی جارہی تھی لیکن جاپانی فوج کو پوری طرح سرنِگوں کرنا ابھی بہت دور کی بات تھی ۔ بائیس جون صبح 3 بجکر 40 منٹ پر لیفٹینٹ جنرل اوشی جیما اور جنرل ایسامو چو نے جنوب کی جانب پہاڑ 89 کے نزدیک خود کُشی کرلی ، جسے ھارا کیرے کہتے ہیں یعنی باعزت موت مرنا ۔ اسے سیپوکو بھی کہتے ہیں ۔ سمورائے جنگجووں کیلئے بھی ضروری تھا کہ وہ شکست کو خودکُشی پرترجیح دیں ۔
دوسری جانب امریکی فوج کے لیفٹینٹ جنرل سائمن بی بکنر بھی فوجی محاذ پر نگرانی کے دوران جاپانی فوج کے ایک شل کے پھٹنے سے ہلاک ہوگئے تھے ۔ یہ وہی جنرل بکنر تھے جنہوں نے اوشی جیما کو ہتھیار ڈالنے کا پیغام بھیجا تھا ۔ جنگ لڑنے والی فوجوں کے اعلی جنرل اب اِس دُنیا میں نہیں تھے ۔
جاپانی فوج کے کرنل ھیرو میچی یاھارا رھ گئے تھے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یاھارا نے بھی خودکشی کی اجازت مانگی تھی لیکن اوشی جیما نے یہ کہتے ہوئے اجازت نہیں دی کہ اگر تُم بھی نہ رہے تو پھر اوکیناوا کی جنگ کے حقائق بیان کرنے والا کوئى نہیں ہوگا ۔ یاھارا کو بعد میں امریکی فوج نے جنگی قیدی بنالیا تھا ۔
اوکیناوا کی جنگ کا آخری مرحلہ بہت درد ناک رہا اور انسانی ضیاع کے لحاظ سے یہ بحرالکاہل کی سب سے زیادہ تباہ کن جنگ تھی ۔ اِس جزیرے پرانسانی خون کی ایک دردناک تاریخ موجود ہے جہاں امریکی اور جاپانی افواج کے نقصان پر کئى متضاد اعداد و شمار موجود ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اِس جنگ میں 50 ہزار امریکی اور ایک لاکھ جاپانی فوج اور اوکیناوا کے عام شہری ہلاک ہوئے تھے جبکہ جزیرے پر موجود عمارتوں میں 90 فیصد تباہ ہوگئی تھیں ۔ یہ خوبصورت جزیرہ 82 روزہ جنگ سے دلدل اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا تھا ۔ خوبصورت جنگل و پہاڑ اور ندیاں اب انسانی بربریت کا عکاس بن چکی تھیں ۔ کچھ فوجی مورخین کا خیال ہے کہ اوکیناوا کی سخت جنگ ، ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملے کا سبب بنی ۔
جاپان میں اب بھی یہ بات متنازعہ ہے کہ اوکیناوا کی جنگ میں جاپانی فوج نے مقامی باشندوں کو حُکم دیا تھا کہ وہ خودکشیاں کریں تاکہ وہ امریکی قیدی بننے سے بچ جائیں ۔ اوکیناوا پریفیکچرل امن یاد گار عجائب گھر میں بہت سی ایسی نشانیاں موجود ہیں جو اُس وقت کے افسوسناک لمحات کی کہانی بیان کرتی ہیں ۔
۔جاری ۔