پاکستان کااسلامی بم
تحریر: حسین خاں ۔ٹوکیو
(پہلی قسط)
28 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے کارکن پاکستان اور بیرونی ممالک میں ’یومِ تکبیر‘ مناتے ہیں ،
کیونکہ 18 سال پہلے اس دن 1998 میں نواز شریف نے اس وقت کے وزیرِ آعظم کی حیثیت سے 7 کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے طور پر منوایا تھا۔اس سے صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ ساری اسلامی دنیا کا وقار بلند ہوا ہے۔ اس لیے دنیا میں اب کوئی بھی اسے پاکستان کا ایٹم بم نہیں بلکہ اسلامی بم ہی کے نام سے ذکر کرتا ہے۔
یہ محض مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں ہی کی خوشی کا سامان نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی مسرت کا سبب ہے۔پیپلز پارٹی کے حمایتیوں کو بھی اس لیے خوش ہونا چاہیئے کہ اس پروجیکٹ کو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا اور بے نظیر بھٹّو نے نواز شریف سے مطالبہ کیا تھا کہ انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان بھی کرے، کیونکہ ہمارے یومِ تکبیر سے تقریباً دو ہفتہ قبل 11 اور 13 مئی کو انڈیا نے بھی 5 ایٹمی دھماکہ کر کے دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت کی پوزیشن حاصل کرلی تھی۔اکتوبر 1964 میں چین نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کا کیا تھا۔ اُسی وقت سے انڈیا نے بھی اپنی تیاری شروع کردی تھی۔ اس کے جواب میں اُس وقت کے وزیرِ آعظم ذولفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہمیں خواہ گھاس کھانی پڑے انڈیا کے مقابلہ میں پاکستان کے دفاع کے لیے ہم بھی ایٹم بم بنا کر ہی دم لیں گے1)۔ انڈیا کا وقار بلند کرنے کے لیے اندرا گاندھی نے 1974 میں پہلاایٹمی دھماکہ کیا تھا۔1) اس کے جواب میں ذولفقار علی بھٹو نے ہالینڈ سے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو پاکستان بلاکرانھیں یہ پروجیکٹ سپرد کیا تھا۔سزائے مو ت کی کوٹھڑی میں ہر گناہگار سے گناہگار آدمی کو بھی اپنی نیکیاں یاد آتی ہیں۔ اسی کوٹھڑی سے اپنی آخری یادداشتوں میں سے انھوں نے ایک یہ بات بھی لکھی تھی:
’’ ہمیں پتہ ہے کہ اسرائیل اور جنوبی آفریقہ کے پاس ایٹم بم بنانے کی پوری صلاحیت اور ٹکنالوجی موجود ہے ۔عیسائی ‘ یہودی اور ہندو تہذیب کے پاس بھی اس کی پوری صلاحیت ہے۔ کمیونسٹ طاقتوں کے پاس بھی یہ ٹیکنالوجی ہے۔ صرف اسلامی تہذیب اس سے عاری تھی ‘لیکن اب اس پوزیشن میں تبدیلی آ نے والی ہے۔‘‘ (ذوالفقار علی بھٹو)3)
اس لیے پاکستان کے بم کو اسلامی بم کہنے کاسہرا بھی لوگ ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہی باندھتے ہیں۔
اس یومِ تکبیر والے دن مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ جماعتِ اسلامی کے کارکنوں اور بہی خواہوں کو بھی خوش ہونا چاہیے کیونکہ اس جماعت نے جیسے ہی انڈیا نے 1998 میں دھماکے کیئے اسی وقت سے پاکستا ن کے طول وعرض میں جگہ جگہ جلسے ، جلوس اور مظاہرے کرکے نواز شریف سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ پاکستان بھی جلد از جلد اپنے ایٹمی دھماکوں سے انڈیا کا جواب دے۔
نواز شریف نے انڈیا کے دھماکوں کے جواب میں پہلا ردعمل یہ ظاہر کیا کہ “We will settle score ” ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی انڈیا سے اپنا حساب برابر کریں گے، یعنی یہ کہ ہم بھی اس کا برابر کا جواب دیں گے۔ وہ برابر کا بلکہ اس سے بڑھ کر جواب یہ تھا کہ انڈیا کے1 اور 13 مئی کو دو مختلف دنوں کے میں کیے گئےدھماکوںکے مقابلہ میں پاکستان نے ایک ہی دن میں اور ایک ہی وقت میں کوئٹہ کے چاغی کے علاقہ میں انڈیا کے برابر 5 کامیاب دھماکے کرکے دکھائے۔اور اس کے دو دن بعد مزید دو دھماکے کیئے۔اس طرح انڈیا کے 5 کے مقابلے میں پاکستان کے 7 دھماکے کرکے دکھائے۔ پہلے 5 دھماکوں کے بعد اپنی ایک پریس کانفرنس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے یہ بھی بتا یا کہ ان 5 میں سے ایک دھماکہ جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم کے مقابلہ میں اس سے دو گنا زیادہ طاقت کا تھا۔
اس کے بعد انڈیا نے چپ سادھ لی۔ حصولِ اقتدار سے قبل BJP کے لیڈر‘ مسٹراڈوانی‘ جو آجکل اس کے صدر بھی ہیں‘اپنے الیکشن جیتنے کی تقریروں میں یہ کہا کرتے تھے کہ کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے وہ بھی ہمارا ہے اور اگر ہماری پارٹی اقتدار میں آئے تو ہم بزور طاقت پاکستان کے آزاد کشمیر کو بھی فتح کرکے اسے بھی انڈیا کا ایک حصہ بناکر دکھائیں گے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد انھوں اپنے الیکشن کا یہ وعدہ نبھانے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اس کے برعکس بابری مسجد کو شہید کرنے میں ان کا جو رول تھا ‘اپنی سیاسی زندگی کے دامن سے اس بدنما دھبّے کو دھونے کے لیے پاکستان کا خیرسگالی کا دورہ بھی کیا۔ دشمن کو دوست بنانے کو یہ کتنا اچھا نسخہ ہے کہ آپ اسے دکھادیں کہ تو مجھ سے لڑے گا تو منہہ کی کھائے گا۔ اکھاڑے میں ایک امریکی پہلوان بھی اپنے جاپانی رقیب پہلوان Giant Baba سے یہی کہا کرتا تھا کہ اگر میں تم سے کشتی میں ہار گیا تو تمہارا دوست بن جاؤں گا۔پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اب انڈیا میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ بدل گیا ہے۔ یہ اسی پارٹی کے اس وقت کرتا دھرتا ہیں جنھوں نے اپنے دورِ اقتدار میں اپنی مخلوط حکومت کو بتائے بغیر پاکستا ن کو مرعوب کر نے کے لیے خواہ مخواہ ایٹمی دھماکوں کا ڈرامہ رچایا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کی چال ان ہی کے منہہ پر ماردی۔
وَیمکُرُونَ وَیَمکُرُ اللہُط وَ اللہُ خَیرُ المَاکِرِین (انفال۔ 30 )
’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘
ہندو ‘ پاکستان کو مرعوب کرکے آزاد کشمیر پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور ایٹمی دھماکوں کے ذریعہ انڈیا میں اپنی سیاسی پوزیشن کو مزید بہتر بنانا چاہتے تھے تاکہ اگلے انتخابات میں اتنی اکثریت سے جیتیں کے مخلوط حکومت کے بجائے مرکز میںان کی ایک پارٹی کی حکومت بن جائے۔لیکن ان کی ان سب چالوں کو اللہ تعالیٰ نے اُلٹا کردیا۔اس کے فوری بعد مدھیہ پردیش‘دہلی اور راجستھان کی ریاستوں میں جہاں ان کی حکومتیں تھیں‘ وہاں بھی یہ پارٹی الیکشن ہار گئی۔ اور مرکز میں مخلوط حکومت کے بجائے ایک پارٹی کی حکومت کے خواب بھی ایسے بکھر گئے کہ گذشتہ 18سال سے آج تک ایک دفعہ بھی مخلوط حکومت بنانے کے قابل بھی نہیں رہے اور مسلسل کانگریس پارٹی کے مقابلہ میں الیکشن ہارتے جارہے ہیں۔ بابری مسجد کو شہید کرنے کی وجہ سے انڈیا کے مسلمان اس پارٹی سے ویسے ہی ناراض تھے لیکن ایٹمی دھماکوں کو انڈیا کے مسلمان ‘ مخالفِ پاکستان عمل سمجھ کر اس پارٹی سے اور بھی زیادہ دور ہوگئے۔انڈیا کے مسلمانوں کی ہمدردیا ں تو پاکستان کے ساتھ ہیں۔ پنڈت نہرو ان کوپاکستان کے ففتھ کلامسٹ قرار دیتے تھے۔ مسلمانوں کی اس پارٹیJP سے ناراضگی کی آگ پر ان ایٹمی دھماکوں نے تیل چھڑکنے کا کام کیا۔دو ہندو پارٹیوں کے الیکشن میں انڈیا کے مسلمان ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہ جس پارٹی کی طرف جھک جائیں اُسی پارٹی کا پلّہ الیکشن جیتنے کے حق میں بھاری ہوجاتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد BJP اپنی پچھلی سطح سے بھی بہت زیادہ نیچے گرگئی ہے۔ جو چال انھوں نے اوپر اٹھنے کے لیے چلی تھی وہی چال ان کو مزید لے ڈوبی۔ ان کی کچھ چالیںتو نہ صرف ناکام ہو گئیں بلکہ الٹا ان کے منہہ پر پڑگئیں۔
اور بین الاقوامی ناراضگی اس پر مستزاد کہ جنوبی ایشیاء میں ہلاکت خیز ایٹمی دھماکوں کی شروعات کی ساری ذمّہ داری انڈیا پر آتی ہے نہ کہ پاکستان پر۔انڈیا اور پاکستان کی اب تک تین جنگیں ہوچکی ہیں اور ان کے نتیجہ میں پاکستان اپنا مشرقی پاکستان والاآدھا حصہ کھوچکا ہے۔ اس لیے پاکستان کی اس مجبوری کو جاپان ‘امریکہ اور یورپ سمیت ساری بین الاقوامی طاقتیںسب سمجھتی ہیں کہ اُسے اپنے دفاع کے لیے انڈیا کے جواب میں ایٹم بم کے ہتھیار رکھنا ضروری ہوگیا تھا۔
قاضی حسین احمد صاحب جب امیر جماعتِ اسلامی تھے تو انھیں حکومتِ جاپان نے اپنے سرکاری مہمان کے طور پر جاپان آنے کی دعوت دی تھی۔جاپان کے بعد حکومتِ چین نے بھی انھیں اسی طرح کی دعوت دی تھی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انتخابات میںجماعتِ اسلامی کے ووٹ بنک کی طاقت اور اس کی اسٹریٹ پاؤر پاکستان میں موجودسارے غیر ملکی سفیروں کے سامنے کھل کرآگئی تھی ۔ انھوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ جب نواز شریف نے جماعتِ اسلامی کے ساتھ انتخاب لڑا تھا تو وہ کامیاب ہوگئے تھے اور مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہوگئے تھے۔ لیکن دوسری دفعہ جب نواز شریف اور جماعتِ اسلامی کے درمیان اتحاد نہیں ہوسکا تھا تو نواز شریف ہار گئے تھے اور ان کی جگہ مرکز میں بے نظیر بھٹو کی حکومت بن گئی تھی کیونکہ اسلامی ذہن رکھنے والے لوگ دو ٹکڑوں میں بٹ گئے تھے اس کا فا ئدہ سیکولرزم کا دعویٰ کرنے والی پیپلز پارٹی کو پہنچا۔ لیکن پھر اس بے نظیر حکومت کو گرانے میں جماعتِ اسلامی کے اسلام آباد کے دھرنے نے بنیادی رول ادا کیا تھا۔ اس لیے حکومتِ جاپان و چین کی نظر وں میں جماعتِ اسلامی‘ خواہ چھوٹی ہی سہی لیکن ایک سیاسی طاقت کے طور پر منڈلارہی تھی۔ ہر بیرونی حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حکومتی پارٹی کے علاوہ حزبِ اختلاف کے ساتھ بھی اپنے تعلقات خوشگوار رکھے۔ بہر حال جب یہ جاپان آئے تو مجھے ہرجگہ اپنے ساتھ ساتھ رکھتے رہے۔ جاپان کی جن اہم شخصیات سے بھی انھیں حکومتِ جاپان نے ملوایا‘ ہر ملاقات میں یہی سوال سامنے آتا رہا کہ پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام کو ختم کرکے یہ سارا پیسہ غربت دور کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ ہر جگہ قاضی صاحب اس مصرعہ سے جواب دیتے رہے:
ہے جرمِ ضعیفی کی سزاء مرگِ مفاجات
لیکن جاپان تو کیا خود پاکستان میں بہت سے اپنے آپ کو ’امن پسند ‘ کہنے والے لوگ ایٹمی ہتھیار کے حق میںاس دلیل کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ایک انگریزی اخبار کے پارسی کالم نویس نے نواز شریف کے خلاف اور ان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف آئین سٹائین کا‘ جو جوہری توانائی اور ایٹم بم کے موجد اور دنیا کو اس کا فارمولا بتانے والے پہلے سائنس داں ہیں‘ ایک قول نقل کیا ہے:
ہیروشیما پر ایٹمی بمباری کی نیوز ریل میں انسانوں کی تباہی کے مناظردیکھنے کے بعد آئین سٹائین نے انتھائی افسوس کے ساتھ یہ کہا : ’’ اس طرح کے تباہ کن ہتھیار ایجاد کرنے میں کوئی رول ادا کرنے والا بننے کے بجائے کاش کہ
میں جوتے بنانے والا ایک موچی ہوتا‘‘ (4)
اس کالم نویس سے اس وقت کی نواز شریف حکومت کے ترجمان وزیر مشاہد حسین نے یہ پوچھا کہ ڈاک کے اسٹامپ پرچاغی پہاڑ کی ایک یادگار تصویر چھاپ کر جاری کرنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ اس کے جواب میں اس کالم نویس نے یہ کہا کہ اس کام پر خوشیوں کے شادیانے بجانے کے بجائے نواز شریف اور ان کے سب ساتھی اسلام آباد کی فیصل مسجدجاکروہاں جاکر اپنی اس غلطی کی معافی مانگیں کہ ہم نے پاکستان کی دفاع اور اپنے ملک کے لوگوں کی حفاظت کی مجبوری کی وجہ سے یہ تباہ کن کام کیا ہے۔ اے خدا ہمیں معاف کردے۔ (4)
نواز شریف نے پاکستان کی حفاظت اور عزت و وقار کو زیادہ اہمیت دی۔تباہی ہم تو لانا نہیں چاہتے۔ ہمارا ملک تو انڈیا سے بہت چھوٹا ہے۔ ہم کیا انڈیا سے چھیڑ چھاڑ کریں گے۔جو کچھ شرارت کرنی ہے ‘ وہ ایک بڑا ملک ہی چھوٹے ملکسے کرے گا۔ مشرقی پاکستان کو ہمارے ملک سے علیٰحدہ کرنے والا انڈیاہی ہے۔ ہم نے حملہ کر کے انڈیا کا کون سا حصہ اس سے علٰحدہ کیا ہے؟کشمیر انڈین فوجوں کے زیرِ نگیں ہے۔ اس کے برعکس ہم نے کون سے ہندو اکثریت والے علاقہ پر قبضہ کیا ہے؟ اگر ایٹم بم سے کوئی تباہی ہوتی ہے تو اس تباہی کی شروعات انڈیا ہی کرسکتا ہے نہ کہ پاکستان۔ ہمیں تو اللہ سے معافی نہیں بلکہ اس کا شکر گذار ہونا چاہیئے کہ اس نے اب ہمیں اس قدر طاقتور کردیا ہے کہ اب انڈیا ہماری طرف ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے کے قابل نہیں رہا۔ ہم نے صاف صاف انڈیا کو بتادیا ہے کہ ہم چونکہ ایک چھوٹے ملک کی حیثیت رکھتے ہیں ، اب تک تو مشرقی پاکستان اور کشمیر کی طرح انڈیا ہمارے سارے حقوق سلب کرتا رہا ہے لیکن اب جبکہ ہم ایک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں تو ہم ہی پہلے ایٹم بم استعمال کر کے اپنی حفاظت کریں گے۔ ہم اللہ سے معافی نہیں بلکہ اس کے شکر گذاربندے بن کر رہنا چاہتے ہیں کہ اس نے ہماری جان و مال اور ہمارے ملک کی سالمیت کی حفاظت کا ہتھیار ہمیں فراہم کیا ہے۔
ایک خود دار قوم کی ایسی ہی سوچ ہونی چاہیے۔ کمیونسٹ چین کے بانی ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ خواہ آدھے چین کو موت کے گھاٹ اترنا پڑے، ہم ضرور ایٹم بم بناکر رہیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ اتنی بڑی قربانی دیے بغیر ہی ہمیں اللہ نے ایک ایٹمی طاقت بنادیا اور ہمیں ہمارے دشمنوں سے بچے رہنے کی سبیل ادا کردی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسانِ عظیم کا ذکر سورۃ قریش میں ان الفاظ میں کیا ہے:
وَ اٰمَنَھُم مِن خَوف (قریش۔آخری آیت)
اور خوف سے بچاکرامن عطا کیا
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی انتھک اور بے لوث کاوشوں اورنواز شریف کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اب پاکستان کا بچہ بچہ اس خوف سے نجات پاگیا ہے کہ آئندہ کبھی بھی انڈیا حملہ کرکے ہماری جان و مال کو کوئی نقصان پہنچاسکے گا یا ہمارے ملک کا کوئی حصہ ہم سے چھین سکے گا۔یہ ہم پر اللہ کی کرم نوازی ہے کہ اس نے ہم کو
’’خوف سے بچاکر امن عطاکیا‘‘
(جاری ہے۔ دوسری قسط انشاء اللہ کل ملاحظہ فرمائیے)
======================================
(1) Bulletin of Atomic Scientists; July 1, 1998; ” Pakistan Joins the club”; Khan, Ayesha and Abbas, Zafar
(2) DAWN: 28 Sep, 2009, “Forget a war, nuclear bombs can’t win a fair election;
by Jawed Naqvi
(3) Bulletin of Atomic Scientists: June 1, 1993; Myth-building: the “Islamic” bomb
(4) DAWN : July 11, 1999; “Lesson Learnt”; by Ardeshir Cowasjee
By Hoodbhoy, Pervez; Prof. ” Nuclear Physics”, Quide-Azam University