پاکستان کااسلامی بم (دوسری قسط)ـ

پاکستان کااسلامی بم
(دوسری قسط)
لڑادے ممولے کو شہباز سے
ایٹمی دھماکوں میں ہندوؤں کے مقاصد کچھ اور تھے اور ہمارے کچھ اور۔ ہندوؤں کی چالوں کو تو اللہ تعالی نے ناکام بنادیا  بلکہ الٹا ان کے منہہ پر دے مارا،لیکن ہماری ناتواں کوششوں میں برکت عطا فرمائی۔’اسلامی‘ بم کے ایٹمی دھماکوں کے ذریعے ہمارے مقاصد پاکستان جیسی ایک اسلامی مملکت اور اس کے کروڑوں مسلمان باشندوں کی حفاظت‘ ان کی اور سارے عالمِ اسلام کی عزت ووقاراور عظمت و شوکت کو سر بلند کرنا تھا، اس لیے ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی ہندوؤں سے بالکل مختلف رہا۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو اقتصادی دیوالیہ اور ایک ناکام ریاست بننے کے خطرات سے اپنی بے پناہ رحمت و کرم سے بچالیا۔
تحریر:  حسین خاں  ۔ٹوکیو  
ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے اپنے دھماکے کرنے کے لیے دو ہفتے لگائے۔ یہ عرصہ پاکستان کے لیے انتھائی آزمائش کا تھا۔ ان دو ہفتوں کے دوران طرح طرح کے دباؤ،لالچ ، خطرات اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی تو ان آزمائشوں سے گذرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ایک مملکت جو اسلام کے نام پر بنی ہے ۔ جہاں ہزاروں بلکہ لاکھوں مساجد سے روزانہ اللہ کا نام پکارا جاتا ہے۔گئے گذرے بے عمل مسلمان بھی کم از کم جمعہ کی ہفتہ وارنمازیں تو  کروڑوں کی تعدا د میں پڑھتے ہیںاوررمضان میں کروڑوں کی تعداد ہی میں روزہ بھی رکھتے ہیں۔ اس ریاست کے دستور میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ یہاں کوئی قانون قران اور سنّت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ ایسے ملک میں انفرادی طور مجرم اور قابلِ سزا اشخاص کا وجود بھی ہے ، لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی بے پناہ کرم نوازی سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس کی ذاتِ پاک ایک ایسے ملک کو اجتماعی طور پراتنی آسانی  سے عذاب یا اپنی سزا کا مستحق قرار دینے کا فیصلہ نہیں کرے گی۔ اس ملک میں بے شمار گناہگاروں اور مجرمین کی موجودگی کے باوجود ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان جیسے ایک اسلامی ملک کو اپنی مدد ، استعانت اور رحمت سے محروم نہیں رکھے گا۔ایٹمی دھماکوں کو جرم قرار دے کر دشمنوں نے پاکستان کا اقتصادی گلا گھونٹنے کی بہت کوشش کی لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھ سکتا ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم غزوہءِ بدر کے وقت کی ایک مثال کو سامنے رکھیں تو یہ بات وضاحت کے ساتھ سامنے آئے گی کہ ہمارے ایٹمی دھماکوں کے فیصلے کے نتیجہ میں جو خطرات ہمیں درپیش تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان سے نبر د آزما ہونے میں کیسے ہماری مدد کی ۔کیوں پاکستان کو قائم و دائم رکھا اور بڑے بڑے طاقتور دشمنوں کی زور آزمائی کے باوجود اس ملک کو پارہ پارہ ہونے سے بچائے رکھا۔ امریکہ ، جاپان اور مغربی ممالک نے ہمارے خلاف Sanctions) ( تادیبی اقدامات کرکے اقتصادی طور پر ہمارا گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ طرح طرح کے لالچ اور دھمکیاں جو ہمیں دی گئی تھیں، ان سب سے ہمیں بچاتے ہوئے اللہ تعا لیٰ نے اس مملکت کو ٹوٹنے پھوٹنے ، ٹکڑے ٹکڑے ہونے اوراسے ایک  ناکام ریاست  Failed State بننے سے بچایا۔

غزوہءِ بدر کی تفصیل میں گئے بغیر قران کی سورہ انفال کی دو تین آیتوں(آیت 7 تا 10 )کے ترجمہ اور اس کے پس ِمنظر سے دیکھئے ہمیں کیا سبق ملتا ہے۔

’’یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کررہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں  مل جائے گا۔تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمھیں ملے۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق حق ہوکر رہے اور باطل باطل ہوکر رہ جائے، خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اور وہ موقع جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایامیں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمھیں صرف اس لیے بتادی کہ تمھیں خوشخبری ہواور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں‘ ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے ،اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے۔‘‘

ان آیات میں ہمارے لیے سبق حاصل کرنے والی ایک بات یہ ہے کہ اللہ نے یہ صاف صاف حکم نہیں دیا کہ تم ’ کمزور‘ جسے قران کے الفاظ میں ’’غَیرَ ذَاتِ الشَّوکَۃِ ‘‘ والا گروہ  کہا گیا ہے ، اُس کی طرف مت جاؤ۔قران کریم کا عربی لفظالشَّوکَۃاردو میں ’شوکت ‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا  ہے جیسے ہم ’شان وشوکت‘ یا ’عظمت و شوکت‘  میں استعمال کرتے ہیں۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ تم اس گروہ  کی طرف جانے کے عمل کو مت اختیار کرو جس کی طرف جانے سے تمہیں عظمت اور شوکت نصیب نہیں ہوگی۔ اگرتم اپنی مرضی سے اس  ’’غَیرَ ذَاتِ الشَّوکَۃِ ‘‘وا لے گروہ  کی طرف جانے کا فیصلہ کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں وہ بھی دینے کے لیے تیار  تھا، لیکن اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ تم اس ’کمزور‘ یعنی  ’’غَیرَ ذَاتِ الشَّوکَۃِ ‘‘ والے گروہ کی طرف  مت جاؤ بلکہ جس سے حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے ،اُس گروہ کی طرف جاؤ۔ یہ دو گروہ حقیقت میںکیا تھے جن کی طرف اشارہ کیا گیاہے؟ ایک تھا تجارتی قافلہ ، جسے ’کمزور‘ یعنی  ’’غَیرَ ذَاتِ الشَّوکَۃِ ‘‘ والاگروہ کہا گیا ہے۔ دوسرا تھا لشکرِ قریش۔اگر تم لشکرِ قریش کے مقابلہ میں جاؤگے تو اللہ کی مدد اور نصرت تمہارے شاملِ حال ہوگی۔ اس بات کو قرانِ کریم میں ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔

’’اور وہ موقع جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایامیں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمھیں صرف اس لیے بتادی کہ تمھیں خوشخبری ہواور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں‘ ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے ،اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے ،  یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے۔‘‘

اگر مسلمان یہ فیصلہ کرتے کہ ہمیں تجارتی قافلہ کی طرف جانا ہے تو انھیں بہت کچھ مال ودولت ملتی اور ان کے معاشی حالات بہت بہتر ہو جاتے۔ اس کے بجائے لشکرِ قریش سے ٹکّر لینے والوں کے لیے اللہ کی مدد واستعانت کا وعدہ تھا کہ ایک ہزار فرشتے پے در پے آکر مسلمانوں کی مدد کرتے اور انھیں کامیاب و کامران کرتے۔ اس سے مسلمانوں کی شان و شوکت اور رعب و داب میں اضافہ ہوتا۔ ان آیات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کی مدد، استعانت ، رحمت و کرم نوازی ان لوگوں کے ساتھ نہیں جو صرف مال و دولت کے فکرمند ہیں ، اسی کی افزائش کی تگ و دو میں دن رات لگے رہتے ہیں، اسی کواپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا محور بنائے رکھتے ہیں، بلکہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو مسلمانوں کی شان و شوکت، ان کی عظمت و سطوت، ان کے رعب و دبدبہ اور ان کے عزت و وقار کو اپنی اوراپنے ملک کی اقتصادی  زندگی اورمعاشی حالات کو بہتر بنانے کی کوششوں کے مقابلے میں ترجیح دینے اور اسی کواولین اہمیت دینے تیار ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے معاملہ میں ہماری قوم نے پاکستان کی سالمیت و بقا اور عزت و وقار کو اپنانے کا فیصلہ کیا ۔ہر قسم کے معاشی و سیاسی لالچ کو ٹھکرا دیا، مالی منفعت اوراقتصادی خوشحالی  کے سبز باغوں  پر لات ماری اور دھمکیوں اور خطرات کی پرواہ نہیں کی۔ پاکستان ہی نہیںبلکہ پورے عالمِ اسلام کی عزت و عظمت ، سطوت و شوکت کا کوئی سودا نہیں کیا۔ اسی وجہ سے اس نازک موقع پر اللہ کی مدد  اور رحمت ہمارے شاملِ حال رہی۔ الحمد لللہ، پاکستانی قوم نے وہی کیا جس کا سبق ہم کو اوپر کی قرانی آیات میں ملتا ہے۔ ان دھماکوں کے بعد سے اب تک 18  سال گذرچکے ہیں لیکن ان کی وجہ سے پاکستان کے ایک ناکام ریاست Failed State بننے کا جو خطرہ  ہمارے سروں پر منڈلارہا تھا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں  اس خطرہ سے بچالیا۔پاکستان کو اقتصادی طور پر تباہ و برباد کرنے کے جوتادیبی اقدامات بڑی عالمی طاقتوں کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر کیے گئے تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو غیر موثّر بنادیا۔آج بھی پاکستان اور اس کے کروڑوں مسلمان غیروں کی محتاجی کے بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے زندہ و سلامت ہیں اور ان کے جان و مال کی اللہ تعالیٰ حفاظت بھی کررہا ہے۔ آزاد کشمیر کے مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہنود کے ناپاک ارادوں کا شکار ہونے  سے بچایا ہوا ہے۔

ایٹمی دھماکوں میںہندوؤں کے مقاصد کچھ اور تھے اور ہمارے کچھ اور۔ہندوؤں کی چالوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ناکام بنادیا  بلکہ الٹا ان کے منہہ پر دے مارا،لیکن ہماری ناتواں کوششوں میں برکت عطا فرمائی۔ہمارے مقاصد پاکستان جیسی ایک اسلامی مملکت اور اس کے کروڑوں مسلمان باشندوں کی حفاظت اور ان کی عزت اوروقارکو سر بلند کرنا تھا، اس لیے ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی ہندوؤں سے مختلف رہا۔ ہم نے اپنی ساری  ناتوانی، کمزوریوں اورمشکلات کے باوجود،1 ویں صدی کی ہم سے کئی گنا بڑی عالمی طاقتوں کی دشمنی مول کر، ایک ناکام ریاست بننے اور اپنے اقتصادی دیوالیہ کے خطرات کو انگیز کرکے ہمارے اپنے اسلامی ملک ہی کی نہیں بلکہ سارے عالمِ اسلام کی عظمت وشوکت کو چار چاند لگانے والا اقدام کیا ۔’ اسلامی‘ بم کہلانے والے ایٹم بم کے دھماکے کیے تو اسی قادرمطلق اور خالقِ سمٰوٰت والارض کی رحمت و کرم نوازی ہمارے شاملِ حال رہی جس نے ہم جیسے کمزور اور ناتوان ممولے کو شہباز سے لڑنے کی ہمت اور توفیق دی تھی۔شاید ایسے ہی اقدامات کی ہمت افزائی کے لیے علامہ اقبال نے ہمیں یہ درس دیا تھا:

لڑادے ممولے کو شہباز سے

پاکستان کا گلا گھونٹنے کے لیے ایٹمی دھماکوں سے کئی سال پہلے ہی سے پاکستان پر ایٹم بم بنانے کی تیاریوں کا الزام لگا یا گیا۔ اس طرح کی CIA  کی رپورٹوں کی بنیاد پر امریکہ نے پاکستان پر Sanctions عائد کیے ہوئے تھے اور پریسلر ترمیم کی بنیاد پر پاکستان کی مالی اور فوجی امداد بند کی ہوئی تھی۔پریسلر ترمیم کے نام پر امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا تھا ۔ اس کے ذریعے پاکستان کو کسی قسم کی کوئی فوجی یا مالی امداد دینے سے قبل صدرِ امریکہ کو پابند کردیا گیا تھا کہ وہ کانگریس کو یہ رپورٹ پیش کرے کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کی کوئی تیاری نہیں کررہا ہے۔ جب سے یہ قانون منظور کیا گیا، اس کے بعد سے ایک مرتبہ بھی کسی امریکی صدرنے کبھی ایسی کوئی رپورٹ نہیں دی کہ پاکستان ایٹم بم نہیں بنارہا ہے۔ اس بہانہ سے پاکستان کی ساری امداد بند کردی گئی اور طرح طرح سے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنی عزت و وقار والا راستہ اختیار نہ کرے بلکہ اس طرح  کے دباو کے تحت پیدا کردہ مشکلات سے گھبراکر ایٹم بنانے کے پروگرام کو تج دے ۔

E ہندوستان اورپاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے درمیانی دو ہفتوں کے اندر پاکستان کو بین الاقوامی طاقتوں کی طرف سے بار بار یہ دھمکیاں دی گئیں کہ اگر پاکستان نے ہندوستان کے جواب میں ایٹمی دھماکوں کا پروگرام ختم نہیں کیا تواس کے برے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ پاکستان کی بڑی مذمت کی گئی۔امریکہ کی امداد تو پہلے ہی سے کئی سالوں سے بند تھی،لیکن چند ماہ پہلے فروری سے کچھ عرصہ کے لیے امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے عارضی طور پربحال ہوئی تھی ، وہ بھی فوراً ختم کردی گئی۔  امریکہ کے ساتھ ساتھ جاپان نے بھی امریکی کتّے کارول اختیار کرتے ہوئے اپنی بھی ساری امداد  فوری طور پربند کرنے کا اعلان کردیا۔جاپان کی امداد پاکستان کومختلف ممالک سے ملنے والی مجموعی امداد کا 36%   ہوا کرتی تھی۔اس طرح پاکستان کو ماضی میں بڑے پیمانہ پر امداد دینے والے ان دو ممالک کے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تعطل کا شکار ہوگئی اور سودی قرضوں کے سود کی ادائیگی کے بوجھ کے تلے دیوالیہ کے قریب پہنچ گئی۔   نواز شریف نے ایٹمی دھماکوں کے فوری بعد8 May 1998 کی شام میںٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کیا اور اُسی رات کے بارہ بجے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی ۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے پاکستان کے بنکوں میں موجود زرِ مبادلہ کے سارے اثاثے منجمد کرکے انھیں پاکستانی کرنسی میں تبدیل کردیا ۔ دوسرے دن سارے بنک اور اسٹاک ایکسچینج بند رکھے گئے۔

امریکہ، جاپان اور سارے مغربی ممالک نے پاکستان کی ہرقسم کی اقتصادی امداد بند کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو تباہ حال کرنے کے لیے اس کے خلاف تادیبی اقدامات Sanctions بھی منظور کرکے ہمارے ملک کا اقتصادی طور پر گلا گھونٹنے کی کوشش میں کوئی کسر باقی نہیںرکھ چھوڑی۔امریکہ نے اپنی امداد بند کرنے کے علاوہ عالمی بنک، IMF, Asian Development Bank (ADB) جیسے بین الاقوامی اداروں سے بھی پاکستان کی ساری امداد بند کروانے کے لیے ان پر بھی دباؤ ڈالا۔

بیرونِ ملک پاکستانیوں کے 11 بلین ڈالر زرِ مبادلہ کے اثاثے منجمد کرنے کے مارکیٹ پر برے اثرات ہوئے۔ یہ گویا پاکستانی کرنسی کی شرح میں 20% کمی کرنے کے مترادف تھا۔ اس کی وجہ سے مارکیٹ میں خوف و ہراس پھیل گیا اور افراتفری مچ گئی۔ غیرملکی بنکوں نے پاکستان کے پاس اپنی کرنسی جو بطورwap  امانت رکھوائی تھی، وہ بھی حکومت بروقت ادانہیں کرسکی۔ اس Defualt کی وجہ سے پاکستان پر مزید عدم اعتمادی میں اضافہ ہوا۔ بیرونِ ملک  پاکستانیوں کی طرف سے جو سالانہ 2 بلین ڈالر کا زرِ مبادلہ آیا کرتا تھا، وہ بھی آنا بند ہوگیا۔سرکاری شرح مبادلہ کے بجائے بلیک مارکیٹ کی شرح مبادلہ بہت اچھی ہوگئی۔ لوگ اپنی رقوم بلیک مارکیٹ سے بھیجنے لگ گئے۔پاکستان امپورٹ ایکسپورٹ مین بھی زرِ مبادلہ کی Default کرنے لگا۔ اس سے باہر کے ملکوں کے ساتھ پاکستانیوں کی تجارت بھی مشکل ہوگئی، پاکستانی بنکوں کی L/C پرباہر کی بنکوں کا اعتماد اٹھ گیا۔حکومت کے لیے قرضوں پر عائد سود کی قسط وار ادائیگی بھی مشکل ہوگئی۔نومبر تک قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں پاکستان پر.4 بلین رقم کے واجب الادا بقایاجات چڑھ گئے۔ان ساری مشکلات کا دباو پیدا کرکے پاکستا ن کو مجبور کیا گیا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے بین الاقوامی معاہدہ پر دستخط کرے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان ساری اقتصادی مشکلات کی مجبوری کے سبب پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام سارا لپیٹ دے۔ ان ساری مشکلات کے باوجود نواز شریف اپنی پالیسی پر ڈٹے رہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے ان سب مشکلات سے نکل آنے کی کوئی نہ کوئی سبیل نکالی جس کے نتیجہ پاکستان نے گذشتہ 18 سال سے اب تک اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان نہیں کیا۔

آج اگر ہم  اپنی آمدنی یا بجٹ کا 50% سے زیادہ حصہ بین الاقوامی اداروں کے سودی قرضوں کے صرف سود کی ادائیگی پرخرچ کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے بوجھ  تلے بے انتھاء مقروض ہوکر روز بروز دیوالیہ  ہونے کی منزل کی طرف آگے بڑھے چلے جارہے ہیں تو اس کی وجہ ہماری آج کی لیڈرشپ، اس کا کرپشن اور عالمی سطح پر ’’مسٹر 10% ‘‘ کی شہرت رکھنے والے شخص کو اپنا صدرِ مملکت بنانا ہے نہ کہ 18 سال پہلے کیے گئے ایٹمی دھما کے۔اَعماَلُکُم عُمّالُکُم کے بمصداق جیسے ہمارے اعمال ہوں گے ویسے ہی ہمارے عُمّال ہوں گے۔ہم نے خود انتخابات کے ذریعہ سے ایک ایسی پارٹی کو اپنی حکمران جماعت چنا ہے جو کھلم کھلا اپنے آپ کوایک سیکولر یعنی ’’لادینی‘‘   جماعت کہتی ہے۔لادینیت کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی اجتماعی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات  کی صرف  نماز، روزہ،حج،زکوٰۃ اور دعوت وتبلیغ کی حد تک  پیروی کریں گے، مسجد کے اندر اس کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کریں گے لیکن مسجد کے باہر بازاریا ملکی معیشت و سیاست کے ایوانوں میں  اس کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ بزرگوں کی درگاہوں پر جاکر صرف اپنی ذاتی ضروریات اوراغراض کی تکمیل کی خاطر دعاؤوں کی قبولیت کی حد تک اللہ تعالیٰ کی بڑائی مانیں گے ۔ ہمیں اسلامی شریعت کے نفاذ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ شریعت کا نام لینے والوں کو ہم دہشت گرد قرار دے کر،امریکہ کے ساتھ مل کر اپنی فوج اور امریکی Drones کے ذریعہ ان کو مار مار کر اُن کا بھرتہ نکالیں گے۔ہم یہودیوں کی طرح قرانی آیت اَفَتُومِنُونَ بِبَعضِ الکِتٰبِ وَتَکفُرونَ بِبَعض کے بمصداق اللہ کی کتاب کے(نماز،روزہ یا تبلیغ و دعوت جیسے) ایک حصہ کو تو مانیں گے اور(نفاذِ شریعت جیسے) دوسرے حصہ کی خلاف ورزی کریں گے کیونکہ سیکولرزم یا ایک سیکولر سیاسی پارٹی ہونے کا یہی مطلب ہوتا ہے۔ پاکستان آج مہنگائی، لوڈشیڈنگ، کرپشن ،رشوت خوری ، دیوالیہ کی طرف لے جانے والے سودی قرضے اور دوسرے جن گمبھیر مسائل اور مشکلات کا شکار ہے ،اُس کی وجہ سیکولرزم کے نام پر اللہ تعالیٰ کی کھلم کھلانافرمانی کا اعلان اور اس پر عمل کرنے والی حکمران پارٹی اور اس کی ’’مسٹر 10% ‘‘ جیسی لیڈرشپ ہے نہ کہ دو دہائی قبل پاکستان کی بقا اور سالمیت کو برقراررکھنے کے لیے کیے گئے ایٹمی دھماکے۔

(جاری ہے۔ تیسری قسط انشاء اللہ جلد شائع کی جائے گی)

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.