History of Japan – 07
Afridi
جاپان کی شکست
پندرہ اگست 1945 کو جاپان کے شہنشاہ ہیرو ہیتو نے ریڈیو ٹوکیو پر قوم سے خطاب کرتے کہا کہ اُن کا مُلک پوسٹ ڈیم اعلامیے کو قبول کرتا ہے ۔ اِس اعلامیے میں جاپان سے کہا گیا تھا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے جو جاپانی فوج کیلئے یہ بہت بڑے صدمے کی بات تھی ۔ اِس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کچھ فوجیوں نے 14 اور 15 اگست کی رات بغاوت برپا کی ۔
وہ اتحادیوں کے سامنے کسی بھی صورت میں ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں تھے ، اور وہ یہ فیصلہ واپس لینے پر بضد تھے ۔ وہ چاھتے تھے کہ ٹوکیو شاہی محل پر قبضہ کرکے شہنشاہ کو محل میں نظر بند کردیں ۔ اِس کاروائى کے دوران شاہی گارڈ کے لیفٹینٹ جنرل تاکیشی موری ھلاک ہوئے ۔ لیکن یہ باغی عناصر پوری فوج میں حمایت حاصل نہیں کر پا سکے اور بغاوت ناکام ہوئى ۔ کئى فوجی اِس افسوس ناک لمحے کو برادشت نہ کرتے ہوئے خودکشی کرگئے اور کئى نے 15 اور 16 اگست کو 100 سے زیادہ امریکی جنگی قیدوں کو قتل کر ڈالا ۔ برطانوی اور آسٹریلوی کے فوجیوں کو بھی قید کے دوران ہلاک کیا گیا ۔
ایٹمی حملے جاپان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے تھے ۔ امریکن ملٹری ہسٹری کے مطابق ، اگرچے فضائى حملوں نے جاپان کی جنگی صلاحیت کو خاصا کمزور کردیا تھا لیکن پھر بھی ہتھیار ڈالتے وقت جاپان کے پاس 2,000,000 فوج تھی ۔ گو کہ جاپانی فوج نے دفاعی پوزیشن اختیار کرلی ہوئى تھی لیکن وہ ایک سخت زمینی جنگ لڑنے کیلئے تیار تھی اور اِس کے علاوہ جاپان کے پاس 3,000 لڑاکا طیارے بھی تھے ۔ جاپانی شاہی بحری بیڑے کے کمانڈرایڈمرل ایسوروکو یاماموتو نے جنگ شروع ہونے کے موقع پر جذباتی ہوتے ہوئے اُنگلی اُٹھا کر کہا تھا ، ” یہی کافی نہیں کہ ہم گوام ، فلپائن یا یہاں تک کہ ہوائی یا سان فرانسِسکو کو فتح کریں بلکہ ہمیں اِس سے بھی آگے واشنگٹن تک مارچ کرنا چاھیے اور معاہدے پر دستخط وائٹ ہاوس میں ہونے چاھیں“ ۔ لیکن جاپانی ایسا نہ کرسکے اور اب اُن کی نہیں بلکہ امریکہ کی مرضی سے جنگ ختم ہونے کا معاہدہ ہوگا ۔
جاپان کو دراصل مسلسل دو سال سے مختلف محاذوں پر شکست کا سامنا رہا ۔ جنوب مغربی بحرالکاہل ، ماریاناس مہم ، فلپائن مہم، اور سائپن میں ناکامی سے جاپان کو کافی نقصان ہوا ، اور پھر آؤجیما اور اوکیناوا جزائر پر امریکی قبضے سے اتحادی افواج جاپانی سرزمین پر داخل ہوچکی تھیں ۔
چونکہ جاپان کے پاس اپنے قدرتی وسائل انتہائى کم ہیں اِسلئے وہ زیادہ تر خام مال ایشیائى ممالک سے درآمد کرکے اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے لہذا جنگ کی صورت میں خام مال کی درآمد میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور پھر اتحادیوں کی جانب سے جاپان کے بڑے کارخانوں پر فضائى بمباری سے بھی بہت نقصان ہوچکا تھا ۔ آخر میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ جاپان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ۔
اُس وقت کے جاپانی وزیر اعظم کنتارو سوزوکی ، کی کابینہ ہتھیار ڈالنے دینے کی مخالف تھی ۔ وہ چاھتے تھے کہ جنگ جاری رہے کیونکہ جاپانیوں کیلئے شکست تسلیم کرنا ایک ایسا فعل تھا جس کا اُنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ 2000 سالوں میں نہ تو کوئى جاپان پر جارحیت کرسکا تھا اور نہ ہی اُسے کسی جنگ میں شکست ہوئی تھی ۔
روس کا منچوریا پر حملہ
امریکی ایٹمی حملے سے قبل تک ، جاپان نے سوویت یونین کے توسط سے امریکہ اور اتحادیوں کے ساتھ امن کی راہ نکالنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئى کیونکہ سوویت یونین خود اتحادیوں سے وعدہ کرچکا تھا کہ جرمنی کی شکست بعد وہ جاپان کے خلاف اعلان جنگ کردے گا حالانکہ سوویت یونین اور جاپان کے مابین عدم جارحیت کا معاہدہ بھی ہوا تھا ، لیکن بعد میں سوویت یونین نے اِس معاہدے کی تجدید نہیں کی ۔
جاپان کو یہ خدشہ تھا کہ ممکن ہے امریکہ اور مغربی طاقتوں نے جاپان کے خلاف جنگ شروع کرنے کیلئے سوویت یونین کو کچھ رعایتوں کی پیش کش بھی کی ہو۔ لہذا جاپان کے وزیر خارجہ شیگی نوری توگو، نے سوویت یونین پر زور دیا کہ وہ جاپان کے معاملے میں غیر جانبدار رہے ۔ جاپان کو خدشہ تھا کہ روس کسی بھی وقت منچوریا پر ایک بڑا حملہ کرسکتا ہے اِسلئے وزیرخارجہ توگو نے ماسکو میں جاپان کے سفیر نااُوتاکے، کو 30 جون 1945 کو اِس پیغام کے ساتھ بھیجا :
” عزت مآب شہنشاہِ جاپان کا فرمان ہے کہ دونوں مُلکوں کے مابین لڑائى دونوں مُلکوں کے عوام کیلئے نقصان دہ ہے لہذا دلی خواہش ہے کہ اِس کشیدگی کو فوری ختم کیا جائے اور جہاں تک انگلینڈ اور امریکہ کا یہ اصرار ہے کہ جاپان غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینک دے تو جاپان کے پاس سوائے اِس کے کوئى متبادل نہیں کہ وہ اپنے مادرِ وطن کی عزت و ناموس کیلئے پوری طاقت کے ساتھ لڑے“ ۔
ہیرو شیما پر 6 اگست کو ایٹمی حملے کے تین دِن بعد 9 اگست کو صبح 4 بجے یہ اطلاع ٹوکیو پہنچی کہ سوویت یونین نے غیر جانبداری کے معاہدے کوتوڑتے ہوئے جاپان کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اور اُس کی فوجوں نے منچوریا میں جاپان کی کٹھ پتلی حکومت مانچو کواو پر حملہ کردیا ہے ۔ یہ جاپان کیلئے ہیروشیما کے بعد دوسرا بڑا دھچکہ تھا ۔
وزیراعظم سوزوکی نے شہنشہاہِ جاپان سے ملاقات کرنے کے بعد صبح ساڑھے دس بجے سپریم کونسل کا اجلاس بلایا ۔ ابھی اجلاس جاری تھا کہ دِن گیارہ بجے یہ خبریں آئیں کہ امریکہ نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹمی حملہ کردیا ہے ۔ ڈھائى بجے ہونے والے جاپانی کابینہ کے مکمل اجلاس میں زیادہ تر بحث ہتھیار پھینکنے کے معاملے پر ہوتی رہی لیکن تین گھنٹوں کی بحث و مباحثے کے بعد بھی کوئى اتفاقِ رائے نہ ہوسکا ۔ سہ پہر چار بجے سے رات دس بجے تک ایک اور اجلاس ہوا لیکن پھر بھی کوئى نتیجہ برآمد نہ ہوا ۔ 8 اور 9 اگست 1945 کی رات، وزیراعظم سوزوکی اور وزیر جارجہ توگو، نے شہنشاہ سے ملاقات کی اور وزیرِ جنگ کوریچی کا آنامی ، کا سپریم کونسل کے اجلاس سے تیار کردہ چار نکاتی مجوزہ مسودۀ پیش کیا ۔ 10 اگست کی صبح دو بجے وزیراعظم سوزکی نے شہنشاہ پر فیصلہ چھوڑ دیا کہ وہ کیا آخری فیصلہ کرتے ہیں ۔
کچھ تاریخی اوراق سے معلوم ہوا ہے کہ شہنشاہ نے کہا کہ جنگ جاری رکھنا ہماری قوم کی تباہی ، خون خرابہ اور ظلم کے سواء کچھ نہیں ۔ میں اپنے معصوم عوام کو مزید مصیبت جھیلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔ گو کہ یہ ناقابل برداشت ہے کہ جاپان کی بہادر اور وفادار فوج کسی کے سامنے غیر مسلح ہو ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ناقابل برداشت کو برداشت کریں ۔ میں اپنے غم کے آنسو پیتے ہوئى وزیرِ خارجہ کے تیار کردہ خاکے کی بنیاد پر اتحادیوں کے اعلان کی منظوری دیتا ہوں ۔
پندرہ اگست 1945 کو دوپہر 12 بجے شہنشاہِ جاپان کا پیغام ریڈیو پر نشر ہوا ۔ اُنہوں نے اپنی خطاب میں کہا کہ ہماری جراءت مند فوج کی بہادری اور عوام کے پُرخلوص خدمات کے باوجود حالات ایسا رُخ اختیار کر گئے ہیں جو جاپان کے حق میں نہیں ۔ مزید یہ کہہ دشمن نے ایسے ظالمانہ بموں کا استعمال شروع کیا ہوا ہے کہ اُن سے ہونے والی تباہی ان گِنت ہے ۔ اگر ہم جنگ جاری رکھتے ہیں تو اِس سے جاپانی قوم کیلئے مزید تباہی پیدا ہوگی ۔ ہم نے لاکھوں کروڑوں عوام کو بچانا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اتحادیوں کے مشترکہ اعلامیہ کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
سترہ اگست کو شہنشاہِ جاپان نے وزیراعظم سوزوکی کو ہٹا کر اپنے چچا پرنس ہیگاشی کونی ناروہیکو، کو 43 ویں وزیراعظم کی حثیت سے ذمہ داریاں سونپ دیں تاکہ مزید بغاوت یا قاتلانہ حملوں کو روکا جاسکے ۔ اِسی طرح وزیر خارجہ توگو کو بھی ہٹایا گیا اور اُن کی جگہ یہ فرائض ماموروشیگے میتسو کو دے دی گئیں ۔ شیگے متسو کی ایک ٹانگ مصنوعی تھی اور وہ لنگڑا کر چلتا تھا اور اُن کے ایک ہاتھ میں چھڑی ہوتی تھی کیونکہ 29 اپریل 1932 کو کوریا کی آزادی کے ایک کارکُن یون بونگ ۔گل نے اُن پر بم حملہ کیا تھا جس سے اُن کی ایک ٹانگ کٹ گئى تھی ۔ اُس وقت وہ شنگھائى میں جاپان کے وزیر مقرر تھے ۔
جاپان کی فوجیں اب بھی سوویت اور چینی افواج کے خلاف لڑ رہی تھیں ۔ جنگ جاری تھی اور اُنہیں جنگ بندی اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا تحال ممکن نہیں تھا ۔ یہ لڑائى ستمبر کے اوائل تک چلتی رہی جب سوویت یونین کے افواج نے کوریل جزائر پر قبضہ کرلیا ۔
ہتھیار ڈالنے کی تقریب اورجاپان پر قبضہ
جاپان کی شکست کے دستاویزات پر جاپان ، امریکہ ، سوویت یونین ، چین ، آسٹریلیا ، کینڈا ، فرانس ، ہالینڈ اور نیوزی لینڈ نے دستخط کیے ۔ دستاویزات پر دستخط کی تقریب 2 ستمبر 1945 کو خلیجِ ٹوکیو میں لنگرانداز امریکی بحری بیڑے یو ایس ایس میسوری پر منعقد کی گئى جو 23 منٹ تک جاری رہی اور اِسے دُنیا بھر میں نشر کیا گیا ۔ جاپان کے وزیر خارجہ مامورو شیگے میتسو ، نے شہنشاہِ جاپان اور جاپانی حکومت کی جانب سے دستخط کیے ۔ دستاویزات پر دستخط کرنے والا وہ پہلا فرد تھا اِس کے بعد جاپانی فوج کے چیف آف آرمی جنرل سٹاف، جنرل یوشی جیرواُمیزو اور تیسرے نمبر پر امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر نے دستخط کیے ۔
معاہدے میں درج تھاکہ :
جاپانی افواج جہاں کہیں ہیں وہ اتحادی افواج کے سامنے غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینک دیں ۔
جاپانی افواج جہاں کہیں ہیں اپنی مخالفانہ سرگرمیاں ترک کردیں تاکہ بحری جہازوں ، طیاروں ، فوجی اور شہری تنصیبات کو نقصان نہ پہنچے ۔
جاپانی حکومت اپنے جنرل ہیڈکوارٹرز کو حُکم دے کہ وہ اتحادی افواج کے تمام جنگی قیدیوں اور زیر حراست شہریوں کا آزاد کرے
چونکہ جاپانی فوج بحرالکاہل، جنوب مشرقی ایشیاء اور چین سمیت کئی علاقوں میں بکھری ہوئى تھی اِسلئے اُن محاذوں پر یہ اطلاع نہ پہنچ سکی کہ اُن کے مُلک نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں ۔ کئى جاپانی افواج کو یقین نہیں آرہا تھا اور وہ اِسے اتحادی افواج کا پروپیگنڈہ تصور کرکے مسترد کرچکے تھے اور کئى نے تو شکست کی وجہ سے اپنے مُلک واپسی کو بالکل ترجیح ہی نہیں دی ۔ ایک اندازے کے مطابق ، جاپان کے 5,400,000 فوجیوں اور 1,800,000 بحری فوجیوں کو جنگی قیدی بنالیا گیا تھا جن میں 60,000 جنگی قیدی چین کے پاس تھے ۔
یہ جاپان کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ غیر مُلکی افواج اُس کی سرزمین پر قبضہ کررہی ہیں ۔ جنگ کے دوران اتحادی افواج نے منصوبہ بنایا تھا کہ جس طرح مقبوضہ جرمنی کے حصے بخرے کرکے اتحادیوں کے مابین بانٹ دیا گیا وہی سلوک جاپان کے ساتھ بھی کیا جائے گا ۔ تاہم امریکہ نے آخری منصوبے میں جاپان کو اپنے زیرِ قبضہ رکھا ، اور ساتھ ساتھ جنوبی کوریا ، اوکیناوا ، اور آمامی جزائر پر بھی اپنا تسلط رکھا ۔
جبکہ سوویت یونین کو شمالی کوریا ، سخالین اور کوریل جزائر کا قبضہ دیا گیا ۔
جاپان کے جنگی جرائم
جاپان اُنسویں صدی سے لیکر بیسویں صدی کی وسط تک کئى جنگی جرائم کا مرتکِب ہوا ۔ جن میں عام شہریوں کا استحصال اور ہلاکت، جنگی قیدیوں سے ناروا سلوک اور دُشمن فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے نیوریمبرگ چارٹر کے معین کردہ قوانین کی خلاف ورزی شامل تھی ۔ اگرچے جاپان نے جنیوا کنونشن پر دستخط نہیں کیے تھے تاہم جنگ عظیم دوئم کے دوران اُس کی فوج نے خود اپنے فوجی قوانین کی خلاف ورزی کی ۔ جاپانی فوج نے سن 1899 اور سن 1907 کے ہیگ کنونشن جیسے بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری بھی نہیں کی جس میں کیمیائى ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی ہے اور جنگی قیدیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔
تاریخ دان چالمرز جونس لکھتے ہیں کہ جاپان نے چین، فلپائن ، ملایا، ویت نام، کمبوڈیا، انڈونیشیا اور برما میں تین کروڑ افراد کو ہلاک کیا، جن میں چینوں کی تعداد دو کروڑ تیس لاکھ تھی ۔ لاکھوں افراد سے جبری مشقت لی اور مقبوضہ علاقوں کے اثاثوں اور وسائل کو لوٹا ۔ جنگی محاذوں پر لڑنے والے جاپانی فوجیوں کی جنسی تسکین کیلئے عورتوں کا بے دردی سے استحصال کیا ۔ اِن سب واقعات میں سب سے دردناک واقعات چین کے اُس وقت کے دارالحکومت نان کینگ میں رونماء ہوئے جہاں جاپانی فوج نے عام شہریوں کا انتہائى سفاکانہ انداز میں قتل عام کیا ۔ مشرقی بعید کیلئے قائم فوجی ٹربیونل جِسے ٹوکیو ٹرائل بھی کہتے ہیں کی تحقیقات کے مطابق سنہ 1937-38 میں جاپانی فوج نے دو لاکھ عام شہریوں اور جنگی قیدیوں کا قتل عام کیا ۔
جاپان کے خصوصی فوجی یونٹوں نے چین میں عام شہریوں اور جنگی قیدیوں پر تجربات کیے ۔ انسانی جسِم کے اندر کے نظام کا جائزہ لینے کیلئے بغیر بے ہوشی کے اُنہیں چیرلیا جاتا تھا ، یا پیوند کاری کیلئے اعضاء کاٹ لیے جاتے تھے اور یا زندہ انسان کے اعضاء کو سخت سردی کے موسم میں منجمد کردیا جاتا تھا ۔ کیمیائى ہتھیاروں کے اثرات دیکھنے کیلئے کئى تجربات کیے گئے ۔ اِن میں زیادہ تر تجربات جاپانی فوج کے بدنام زمانہ یونٹ 731 نے کیے جس کے سربراہ شیروایشی تھے جو ایک مائیکروبائلوجسٹ اور اِس یونٹ کے لیفٹینٹ جنرل تھے ۔ اُنہیں قابض امریکی فوج نے تجربات سے حاصل کردہ کیمیائى ڈیٹا دینے کے بدلے میں معاف کیا اور کوئى جنگی مقدمہ نہیں چلایا، بلکہ کہا جاتا ہے کہ بعد میں اُسے کیمیائى ہتھیاروں پر مزید تحقیق کیلئے امریکہ بلوایا گیا ۔
لیکن اُس کی بیٹی کا کہنا تھا کہ وہ جاپان ہی میں رہے اور 67 کی عمر میں سنہ 1959 میں گلے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کرگئے ۔ جاپانی فوج پر یہ الزام بھی تھا کہ اُس کے فوجیوں نے جنگی قیدیوں کا گوشت بھی کھایا اور کئى کو اِس مقصد کیلئے گولی مار کر ہلاک کیا گیا ۔ جنگی جرائم کے ٹربیونل میں کئى سابق فوجیوں نے گواہی دے کہ وہ ایسے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں کہ جاپانی فوج نے انسانی گوشت کھایا ۔ اُن میں ہندوستان کے ایک جنگی قیدی حوالدار چنگدی رام کا بیان بھی ہے جس میں اُنہوں کہا ہے کہ 12 نومبر 1944 کو جاپانی فوجیوں نے اتحادی فوج کے ایک گرفتار پائلٹ کا پہلے گلہ کاٹا اور بعد میں اُس کے اعضاء بھون کر کھائے ۔ اِسی طرح ایک حلفیہ بیان لانس نائیک حاتم علی کا بھی ہے جو سنہ 1947 میں برصغیر کی آزادی کے بعد پاکستان کا شہری بنا ۔ علی نے نیوگِنی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں کہا کہ جاپانی فوج ہر روز ایک قیدی کو باہر نکال کر لے جاتی تھی اوراُسے قتل کرکے کھا جاتے تھے ۔ اُن کے مطابق ، اِس طرح سے سو قیدیوں کو قتل کیا گیا ۔
جاپانی فوج نے مقبوضہ علاقوں میں جبری مشقت لینے کیلئے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو غلام بنایا ۔ تاریخ دانوں کی ایک مشترکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ صرف چین میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد سے جبری مشقت لی گئى ۔ اِسی طرح برما ۔ سیام ریلوئے لائن کی تعمیر کے دوران دس لاکھ عام شہری اور جنگی قیدی ہلاک ہوئے ۔ انڈونیشیا کے جاوا جزیرے پر چالیس لاکھ سے زیادہ افراد سے جبری مشقت لی گئى ۔ یہی نہیں جاپانی فوج نے انڈونیشیا اور چین کے کئى علاقوں میں مقامی عورت کی آبرویزی کی اور خواتین کو جنگی محاذوں پر جبراً بھیج کر فوجیوں کے جنسی حوس کا نشانہ بنایا گیا ۔ ایسی خواتین جنگی تاریخ میں کمفرٹ وومن کے نام سے پہچانی جاتی ہیں اور اُن میں کئى نے بعد میں جاپانی حکومت پر ہرجانے کا دعویٰ بھی کیا ۔
مشرقی بعید کیلئے بین الاقوامی فوجی ٹربیونل
یہ ٹربیونل ، ٹوکیو ٹرائل کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے ۔ اِس عدالت نے 3 مئى 1946 سے اپنے کام کا آغاز کیا ۔ عدالت میں جج کے فرائض سرانجام دینے والوں کا تعلق آسٹریلیا ، کنیڈا، چین ، فرانس، برٹش انڈیا ، ہالینڈ ، نیوزی لینڈ، فلپائن، برطانیہ ، امریکہ اور سوویت یونین سے تھا ۔ جاپان کے جنگی جرائم کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا جن میں کلاس اے میں امن کے خلاف جرائم، کلاس بی میں جنگی جرائم اور کلاس سی میں انسانیت کے خلاف جرائم ۔
جن افراد کو مقدمات کیلئے ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا اُن پر ایک رہنماء کی حثیت سے جارحانہ جنگ شروع کرکے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ۔ ملزمان پر چین ، امریکہ، دولت مشترکہ برطانیہ، ہالینڈ ، فرانس (انڈوچائنہ) اور سوویت یونین کے خلاف جنگ شروع کرنے ، جنگی قیدیوں اور عام شہریوں سے غیر انسانی سلوک کرنے اور قتل و غارت کو نہ روک کر اپنے فرائض میں غفلت برتنے کا الزام لگا کر ٹوکیو جنگی جرائم مقدمے کے سامنے پیش کیا گیا ۔
تین مئى 1946 کو سرکاری استغاثہ کے بیان سے مقدے کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ استغاثہ نے پندرہ مراحل میں شہادتیں پیش کیں ۔ شہادتیں جمع کرنے کا عمل بہت کٹھن تھا کیونکہ جاپانی فوج نے اپنی شکست سے پہلے اپنا بہت سا فوجی ریکارڈ ضائع کردیا تھا ۔ 24 جنوری 1947 کو اسغاثہ کی جانب سے عدالتی کاروائى مکمل کی گئى اور 27 جنوری سے مدعالیان کی جانب سے دفاعی کاروائى کا آغاز کیا گیا ۔ اِن کی دفاع کیلئے سو اٹارنی مقرر تھے ، جنہوں نے عدالتی کاروائى کے آزاد، شفاف اور غیر جانبداری پر شکوک و شبہات کا اظہارکیا ۔ اُنہوں نے بین الاقوامی قانون میں امن کے خلاف جرائم، سازش، جارحانہ جنگ کی تشریحات کو بھی چیلنج کیا ۔ دفاعی اٹارنیز نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بمباری کو بھی جنگی جرائم میں شامل کرنے کے بارے میں دلائل دئیے تاہم اُسے نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے یہ عدالت سخت تنقید کا نشانہ بنی ۔ اُنہوں نے اپنی جانب سے مقدمے کی کاروائى 225 دِنوں میں مکمل کی ۔
مقدمات کا فیصلہ کرنے کیلئے چھ ماہ تک مزید کاروائى جاری رہی اور 1,781 صحفات تیار کیے گئے ۔ مسلسل چار روز تک فیصلے سنوائے گئے 12 نومبر 1948 کو عدالتی کاروائى اختتام پذیر ہوئی ۔
ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار جاپانیوں پر مقدمات چلائے گئے جن میں زیادہ سے زیادہ 900 کو پھانسی دی گئى اور آدھے سے زیادہ کو عمر قید کی سزا سنائى گئى ۔ جاپان کے جن سرکاری عہدے داروں کو سزا سنوائى گئى اُن میں وزرائے اعظم ، وزرائے خارجہ ، وزرائے جنگ ، چیف کابینہ سکریٹری، گورنرِ کوریا ، وزرائے بحریہ ، جرمنی کیلئے سفیر، چیف آف ملٹری بیورو افیئرز ، اٹلی کیلئے سفیر ، کابینہ پلاننگ بورڈ کے صدر اور وزیرِ مالیات شامل تھے ۔ فوجی عہدے داروں میں شاہی جاپانی بحریہ جنرل سٹاف ، چیف آف انٹیلجنس ، کمانڈر برائے برما ، کمانڈر برائے شنگھائى ، کمانڈر برائے فلپائن اور دیگر شامل تھے ۔ اِن میں چھ جنرل کے عہدے دار تھے اور ایک کرنل تھا ۔ اِس کے علاوہ ایک سیاسی فلاسفرشومئے اوکاوا کو بھی سزا سنوائى گئى تھی ۔
چیف آف انٹیلیجنس جنرل کینجی دوئى ہارا ، وزیرخارجہ کوکی ہیروتا ، وزیرِجنگ جنرل سیشیرو ایتاگاکی، جنگی کمانڈر جنرل ہیتارو کیمورا، جنگی کمانڈر جنرل ایوانے ماتسوئے اور جنگی کمانڈر جنرل ہیدے کیتو(جو بعد میں وزیراعظم بنے تھے) کو سزائے موت دی گئى ۔
نیوریمبرگ ٹرائیلز کی طرح ٹوکیو ٹرائیلز پر بھی خاصی تنقید کی گئى کہ مقدمات میں سنوائے گئے فیصلے فاتح مُلکوں کا انصاف تھا ، جو حق بجانب نہیں ہوسکتا ۔ یہ تنقید بھی کی گئى شاہی خاندان کو کیونکر بری اُلذمہ قرار دیا گیا ۔ اُن پر کیوں مقدمات نہیں چلائے گئے ۔اتحادی افواج کے سپریم کمانڈر ڈگلس میک آرتھر اور اُن کے عملے نے شہنشاہ شوا، اور اُس کے شاہی خاندان کو مقدمات سے بچانے کیلئے بنیادی کردار ادا کیا ۔ شاہی خاندان کے شہزادہ چی چیبو، شہزادہ تسونی یوشی ، شہزادہ آساکا ، شہزادہ ہیگاشی کونی اور شہزادہ ہیرویاسو فوشیمی کو ٹوکیو ٹرائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ میک آرتھر نے بیکٹرئیلوجیکل ریسرچ یونٹوں کے سربراہ شیروایشی اور اُن کے عملے کو بھی مقدمات سے مبرا رکھا ۔
۔جاری ۔