ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔ بِلاسودی سرمایہ کاری

حسین خاں ۔ ٹوکیو
(پہلی قسط)
ٹویو ٹا اس وقت دنیا کی سب سے بڑی موٹر کار کمپنی ہے۔ اس وقت دنیا کے 27 ممالک میں اس کے 53 اسمبلی پلانٹ ہیں۔ ان میں کام کرنے والے 3 لاکھ سے زائد افرادکو ٹویوٹا نے 27 ممالک میں روزگارفراہم کیا ہوا ہے۔ گذشتہ سال ٹویو ٹا کو 90 لاکھ کے قریب مختلف ماڈلز کی گاڑیوں میں طرح طرح کی فنّی اور تکنیکی خرابیوںکو ٹھیک کرنے کے لیے واپس منگوانا پڑا تھا۔اس کی وجہ سے امریکی حکومت نے اس پر ایک کروڑ 6 لاکھ ڈالرکا جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ اب تک ساری دنیا میں ٹویوٹا کی کوالٹی کے اعتبار سے نمبر 1 کی جو ساکھ بندھی ہوئی تھی ، وہ بھی بری طرح متاثر ہوچکی تھی۔ اس کے علاوہ عالمی مالی بحران کی وجہ سے بھی ساری ہی کمپنیوں کی گاڑیوں کی فروخت کی رفتار بھی بہت کم ہو گئی تھی۔ان تمام منفی عوامل کے اثرات کے باوجودٹویوٹا اس لحاظ سے کامیاب رہی کہ گذشتہ مالی سال میں،جو 31 مارچ 2009 میں ختم ہوا ہے، ٹویوٹا نے 170 ممالک میں 70 لاکھ 56 ہزار گاڑیاں فروخت کی ہیں۔ اس فروخت سے اس نے سارے خرچوں کو نکال کر 2 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا نیٹ منافع کمایا ہے۔ عالمی کساد بازاری کے سبب گذشتہ مالی سال میں اس کو 4 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑا تھا۔اس کی تاریخ میں 70 سال بعداس کو اپنے دوسرے خسارہ کا شکار ہونا پڑا تھا ۔950 میں ٹویوٹا کو 1937 میں اپنے قیام کے 13 سال بعد پہلا خسارہ ہوا تھا۔ 73 سال میں ہونے والے اس دوسرے خسارہ پر بھی قا بو پاکر ٹویو ٹا حسبِ معمول نفع پر دوبارہ چلنی شروع ہوگئی۔
سالِ رواں میں اس کی شرح منافع میں مزیدمعقول اضافہ کا امکان ہے کیونکہ اس کی گاڑیوں کی مانگ بڑھتی جارہی ہے ۔اس وجہ سے ٹویوٹا نے مزید نئی گاڑیاں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔امسال صرف مئی کے مہینہ میں اس نے پچھلے سال کے مقابلہ میں7% زیادہ گاڑیاں بنائی ہیں۔مئی کے مہینہ میں ھونڈا کمپنی کی 278,543 گاڑیوں کے مقابلہ میںٹویوٹا نے اس سے تقریباً 3 گنا زائد 637,675 نئی گاڑیاں بنائی ہیں۔اس نے برطا نیہ میں ہائی بِرڈ آورِس کار بنانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔اس کی افتتاحی تقریب میں برطانیہ کے متعلقہ وزیر مسٹرونس کیبل نے اپنی خوشی کا اظہا ر کرتے ہوئے بتایا کہ ساری دنیا میں برطانیہ کا برناسٹن ہی واحد شہر ہے جہاں ٹویوٹا کی مشہور ہائی برڈ ماڈل کی کار بنائی جارہی ہے۔
ان ساری باتوں کا بلاسودی سرمایہ کاری سے کیا تعلق ہے؟بلا سودی سرمایہ کاری کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ کوئی کمپنی اپنے سالانہ منافع کا ہر سال ذخیرہ کرتی رہے اور جتنی چادر اتنے پاؤں پھیلاؤ کے اصول پر اپنی توسیع اسی حد کے اندر کرے جتنا سرمایہ کا ذخیرہ اس کے پاس ہو۔اس طرح کے ذخیرہ شدہ سر مایہ پر ایسی کمپنی کو کسی کو سود دینا نہیں ہوتا۔ ایسی کمپنی کی شرحِ منافع ان ساری کمپنیوںسے بہتر ہوگی جو ہر سال اپنے منافع کا ایک حصہ سود دینے کے لیے استعمال کرنے پر مجبورہوںاور بقیہ جو منافع،اگر کچھ بچے تو اسے اصل قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنا پڑجائے۔ نتیجہ یہ کہ ایسی سودی قرض لینے والی کمپنی کے اپنے منافع کو ذخیرہ کرنے کا کبھی بھی کوئی موقع نہیں آپاتا۔ ٹویوٹا جیسی کمپنی جواپنی 73 سالہ زندگی میں صرف دو مرتبہ نقصان میں گئی ہو، اس نے اپنے بقیہ 71 سال میں جو منافع کمایا ،وہ سب کدھر گیا ہوگا؟کچھ تو نئے نئے ماڈلز کی ایجاد و اختراع میں اور کچھ نئے نئے اسمبلی پلانٹ قائم کرنے اور چلانے میں۔ جہاں بھی یہ خرچ ہوا ہو اس کے پاس نقد رقم کی ہمیشہ بہتات رہی ہے۔ 71 سال سے ہمیشہ نقد رقم کی یہ بہتات اور اس کا مسلسل ذخیرہ اس کو کسی بھی بنک یا کسی اور ذریعہ سے سودی قرضے لینے سے بے نیاز کرتی رہی ہے۔ اس طرح کے قرضوں اور ان کے سودکی ادائیگی سے بے نیازی بھی ٹویوٹا کی شرحِ منافع میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔دوسری کار کمپنیوں کو اپنے منافع کا بےشتر حصہ سود اورقرضوں کی ادائیگی میں واپس دینا پڑتا ہے ،اس لیے ان کے پاس اپنی کمپنی چلانے کے لیے ہمیشہ نقد رقم کی کمی ہی رہتی ہے اور انھیں بار بار مزید سودی قرضے لینے پڑتا ہے۔
g
ٹویوٹا کے پاس اپنی 73 سالہ تاریخ میں نقد رقم کی بہتات کے سبب اس کو ہر مشکل موقع پرحالات پر قابو پانے میں آسانی رہی ہے جو دوسری سودی قرض لینے والی کمپنیوں کو حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اسی وجہ سے ٹویوٹا تقریباً 90 لاکھ گاڑیاں واپس منگواکر انھیں مفت میں ٹھیک کرکے ان کے مالکان کو واپس دینے، امریکی حکومت کے عائد کردہ جرمانہ کی ادائیگی اور عالمی مالی بحران اور کساد بازاری کے سبب گاڑیوں کی فروخت میں بے انتھاء کمی جیسی مشکلات پر ٹویوٹا نے اپنے نقد رقم کے ذخا ئر کے بل بوتے پر قابو بھی پایا اور اپنی کمپنی کو دوبارہ ایک مستقل نفع آور کمپنی میں تبدیل بھی کیا۔ انہی حالات کا مقابلہ جنرل موٹرز اور کریسلر جیسی کمپنیا ں نہیں کرسکیں، بلکہ اُلٹا دیوالیہ ہو گئیں حالانکہ یہ عرصہ دراز سے امریکہ کی نمبر 1 اور نمبر 3 درجہ کی کمپنیاں کئی سالوں سے رہی ہیں ۔محض اس وجہ سے یہ دیوالیہ ہوگئیں کہ یہ سودی قرضوں کی کیچڑ میں اس قدر لت پت ہو چکیں تھیں کہ یہ اپنے سود خور قرض خواہوں کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اس دلدل سے باہر نکل نہیں سکیں۔یہ اس قابل نہیں رہ سکیں تھیں کہ سودی قرضے ادا کرکے مزید اپنے کاروبار کو چار چاند لگا سکیں۔ یہ اپنے آپ کو زندہ بھی نہیں رکھ سکیں۔ ان کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کے لیے امریکی حکومت نے0 کروڑ ڈالر دے کر جنرل موٹرز کو اپنے قبضہ میں کرلیا اور اٹلی کی فیاٹ موٹر کمپنی نے کریسلر پر اپنا قبضہ جمالیا۔مقروضوں کا ہمیشہ یہی حشر ہوتا ہے۔ کوئی دوسرا ان پر چڑھ بیٹھتا ہے اور ان کی زندگی بھر کی ساری کمائی آن کی آن میں لٹ جاتی ہے۔
ٹویوٹا نے ان مشکل حالات سے نکلنے کے لیے اپنے نقد رقم کے ذخائر کو کس حکمتِ عملی کے لیے استعمال کیا؟اس نے اپنے کئی ماڈلز کو 5 سال کی بلاسودی اقساط پر فروخت کرنے کا اعلان کیا۔مزید یہ کہ ٹویوٹا برانڈ کی گاڑیاں بار بار خریدنے والے گاہکوں کو سال تک مفت Maintenance کی گارنٹی دی۔ ایسی مراعات وہی کمپنی دے سکتی ہے جس کے پاس نقد رقم کے ذخائر وافر مقدار میں موجودہوں۔
اپنی گاڑیوں کی کثرت سے فروخت کے لیے مزید ایک تدبیر یہ اختیار کی کہ ان مراعات کے حصول کے لیے ایک خاص مدت متعین کردی۔ جیسے یہ امسال مارچ کے مہینے تک خریدنے والوں کے لیے یہ مراعات ہیں۔ اس کے بعد نہیں۔ ہر مہینہ مراعات کی کوئی علیٰحدہ علیٰحدہ شکل اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مارچ کے مہینہ میں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں 35% اضافہ ہوا۔اس طرح مراعات کی مناسبت سے ہر ماہ فروخت ہونے والی گاڑیوں میں اضافہ کی رفتار مختلف رہی۔
5 سال تک لاکھوں گاڑیوں کو بلا سودی قرض پر فروخت وہی کمپنی کرسکتی ہے جس کے پاس کروڑوں ڈالر نقد رقم کی شکل میں وافر پڑے ہوئے ہوں۔ جو کمپنیاں اپنے سودی قرضوں کی ادائیگی کے جنجال میں پھنسی ہوئی ہوں ، وہ ٹویوٹا کی اس حکمتِ عملی کا کیسے مقابلہ کرسکتی ہیں؟ان کے پاس نقد رقم کی اتنی گنجایش ہی کہاں سے ہوسکتی ہے کہ وہ بنک سے مزید سودی قرض لیے بغیر ایسی کوئی سہولت اپنے لاکھوں گاہکوں کو فراہم کرسکیں؟خود سود پربنکوں سے قرض لے کر گاہکوں کو بلاسودی 5,5 سال کے قرضے اسی صورت میں دیئے جاسکتے ہیں جبکہ ان کی شرحِ منافع ایک ایک گاڑی پر 5سالہ سود سے زائد ہو۔پہلے تو ایسا ہونا بہت مشکل ہے اور اگر ہوبھی تو ان کی شرحِ منافع ٹویوٹا کی شرحِ منافع کا کیسے مقابلہ کرسکتی ہے؟ گاڑیوں کی فروخت کی مسابقت میں وہی کمپنی سب سے آگے آگے ہوگی جس کی شرحِ منافع ٹویوٹا کی طرح سب سے زیادہ ہو۔ شرح ِمنافع میں اضافہ اور سودی قرضوں سے بے نیازی ہی وہ اسباب تھے جس نے990 کی دہائی کے بعد سے بقول وال اسٹریٹ جرنل کے ایک آٹوموبائیل تبصرہ نگار کے ٹویوٹا کی رفتارِ ترقی کو Too Big, Too Fast” “بنادیا۔
(جاری ہے)

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.