ٹویوٹا کی کامیابی کا راز(دوسری قسط)

حسین خاں ۔ ٹوکیو(دوسری قسط)
انیس سو نوے کی دہائی میں جاپان ایک زبردست اقتصادی بحران کا شکار ہوا۔اس کو جاپان میں اس کی ’’ضائع شدہ دہائی ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس دہائی میں جاپان اپنی اقتصادی پوزیشن کو قائم نہیں رکھ سکا۔ اس دہائی سے پہلے امریکی دانشور جاپان کو اقتصادی اور انتظامی طور طریقوں کے اعتبار سے دنیا میںنمبر 1 قراردیا کرتے تھے۔لیکن جاپان کی اسٹاک مارکیٹ 1989 کے اختتام پر اپنی انتھائی بلندی پر پہنچ کر اس کے بعد تیزی سے اگلے 10 سال بلکہ 15 سال تک مسلسل گرتی رہی، یہاں تک کہ اب 20 سال گذرنے کے بعد بھی آج تک یہ اپنی سابقہ سطح پر نہیں پہنچ سکی بلکہ ابھی تک اپنی سابقہ سطح کی ایک تہائی قیمت پر اونچ نیچ کا شکار ہورہی ہے۔ جاپان کی اندرونِِ ملک کی مارکیٹ ابھی تک کساد بازاری اور تفریطِ زر کا شکار رہی ہے۔اس لیے جاپان کا سارا زور برآمدات پر ہے ،کیونکہ یہی ایک جاپانی معیشت کے لیے واحد راہِ نجات ہے۔گذشتہ 20 سال کے دوران تقریباًساری ہی جاپانی کمپنیاں چونکہ سودی قرضوں سے چل رہی تھیں، اس لیے ان میں سے چھوٹی موٹی کمپنیاں ماہوار ہزاروں کی تعداد میں دیوالیہ ہونے لگیں۔چند سال ان کا اوسط سالانہ نہیں بلکہ ماہوار 10,000 کا بھی رہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں خود کشیوں میں بھی اضافہ ہوتے ہوتے گزشتہ دس سال سے سالانہ 10,000 خود کشیوں کا اوسط ابھی بھی چل رہا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام نہ غریبوں کے کچھ کام آتا ہے اور نہ ہی چھوٹی کمپنیوں کے۔ یہاں تک کہ قرضہ دینے والی بنکوں کے دروازوں پر بھی دیوالیہ کا بھوت کھٹکھٹانے لگا۔اس سے بچنے کے لیے بہت سی بنکوں نے اپنے آپ کو دوسری بڑی بنکوں کے اندر ضم کردیا۔0 سال پہلے جب میں جاپان آیا تھا اس وقت کی کوئی ایک بنک بھی آج وجود نہیں رکھتی۔ ان سب بنکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے آپ کو ضم کرلیا ہے اور حکومتِ جاپان نے ان کی بروقت مدد کرکے کسی ایک بنک کو بھی فیل ہونے نہیں دیا۔
ان حالات کے اثرات جاپان کی ساری موٹر کار کمپنیوں پر بھی پڑے۔ لیکن ٹویوٹا چونکہ کسی کی بھی مقروض نہیں تھی اور بلا سودی سرمایہ کاری سے کام کررہی تھی، اس لیے اپنی ترقی کے منازل حسبِ معمول طئے کرتی رہی۔موجودہ عالمی بحران کے باوجود ٹویوٹا جس طرح کامیاب نکل آئی اسی طرح 1990 کی ’’ضائع شدہ دہائی ‘‘ میں بھی اس کی کامیابی کا اندازہ اس کی رقیب جاپان کی نمبر 2 کی پوزیشن رکھنے والی نسّانNissan) موٹر کار کمپنی کے حالات سے موازنہ سے کیا جاسکتا ہے۔
< ایسے حالات میں سودی قرضوں پر کام کرنے والی نِسّان کمپنی اس دہائی میں دیوالیہ کے قریب پہنچ گئی تھی۔کساد بازاری اور اپنے قرضوں کے بوجھ تلے یہ کئی سالوں سے مسلسل نقصان میں جارہی تھی۔ اس کے سودی قرضے مسلسل بڑھتے بڑھتے 36 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے تھے ۔ بنکوں نے مزید قرضے دینے سے ہاتھ کھینچنا شروع کردیا۔ دیوالیہ کے علاوہ کوئی اور متبادل صورت سامنے نہیں آرہی تھی۔نسّان جیسی کوئی بڑی جاپانی کمپنی اپنا کنٹرول باہر کے ملکوں کی کسی کمپنی کے حوالے کرنا پسند نہیں کرتی۔لیکن جب بنکوں نے منہہ پھیرلیا تو اس کے سواء کوئی چارہ ء ِکار باقی نہیں رہا تھاکہ نِسّان اپنا کنٹرول کسی بیرونی کمپنی کے ہاتھ میں دے کر اس کی سرمایہ کاری سے اپنے آپ کو دیوالیہ سے بچائے۔فرانس کی رینالٹ موٹر کا ر کمپنی نے 2 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کر کے نِسّان کاکنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا لیکن اس میں حصہ صرف 40فیصد کا حاصل کیا تاکہ نِسّان کے سودی قرضوں کی ذمّہ داری رینالٹ کمپنی کے سر نہ پڑے۔جاپان کی تاریخ میںپہلی دفعہ ایسا ہوا تھاکہ سودی قرضوں کے سبب جاپان کی نِسّان جیسی ایک بڑی کمپنی کسی غیر ملکی کمپنی کے کنٹرول میں چلی گئی ہو۔ بہت سے جاپانیوں کے لیے یہ ایک شرمناک بات تھی ، لیکن سودی قرضوں کا یہی انجام ہونا تھا جو نِسّان کے ساتھ ہوا، خواہ بہت سے جاپانیوں کے پندار کو اس سے کتنی ہی ٹھیس کیوں نہ لگی ہو۔ اس کے علاوہ جاپانیوں کو اپنی انتظامی طور طریقوںanagement پر بھی یورپ کے مقابلہ میں احساسِ کمتری کااحساس بھی اس وقت ہو نے لگا جبکہ رینالٹ کمپنی کی طرف سے مقرر کئے گئے نِسّان کے نئے صدر مسٹر گھوشن نے کئی سالوں سے مسلسل نقصان میں جانے والی نِسّان کمپنی کو ایک ہی سال میں ایک نفع آور ادارہ میں تبدیل کر کے دکھا دیا۔ جاپانی میڈیا نے بھی اس کو بہت اُچھالا۔ مسٹرگھوشن کے جگہ جگہ ٹیلیویژن پر انٹرویو نشر کیے گئے کہ انھوں نے یہ’’ کمال ‘‘کیسے کردکھایا؟ اگر ہمارے سودی قرضوں اور بلاسودی سرمایہ کاری کے اثرات کے موازنہ کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو مسٹر گھوشن کے اس ’’کمال‘‘ کو بہت آسانی سے سمجھا جاسکتاہے۔ لیکن آج کی دنیا میں کسی بھی بڑے سے بڑے ماہرِ معاشیات کے پاس وہ پیمانہ ہے ہی نہیں جوکسی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان طالبِ علمِ معاشیات کے پاس ہوتا ہے۔قران میں شدّت سے سود کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ایک آیت میں سود خوروں کو اس آگ سے ڈرایا گیا ہے جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ایک مسلمان تو سارے معاملات کو پہلے اس نظر سے دیکھے گا کہ سودی اور غیر سودی سرمایہ کاری کے اثرات میں کیا فرق ہوسکتا ہے؟ لیکن غیر مسلم ماہرینِ معاشیات کے نز دیک یہ بات کوئی کسوٹی بننے کا مقام نہیں رکھتی۔ان کے نزدیک یہ کوئی قابلِ اعتناء نقطہءِ نظر ہی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جب رینالٹ کمپنی نے کروڑ 60 لاکھ پونڈکی سرمایہ کاری کرکے نِسّان کمپنی کا کنٹرول حاصل کیا تو کیا یہ کوئی سودی قرض تھا جو ایک فرانسسی کمپنی نے ایک جاپانی کمپنی کو دیا تھا؟اگر یہ رقم ایک سودی قرض کی حیثیت رکھتی تو نِسّان کسی قرض دینے والے کمپنی کو کبھی اپنا حقِ ملکیت نہیں دیتی۔ رینالٹ بھی کوئی ایسی بے وقوف کمپنی نہیں تھی کہ جونِسّان6 کروڑ ڈالر سودی قرضوں کے سبب دیوالیہ کے دروازہ پر آکھڑی ہو، اس کو مزید قرض دے کر اپنی رقم بھی ضائع کردے۔رینالٹ نے جو بھی سرمایہ لگایا تھا اس کی نوعیت سودی قرض کی نہیں بلکہ ’’بلاسودی سرمایہ کاری‘‘ کی تھی۔اس لیے جب کسی سودی قرضوں سے بوجھل کمپنی کو اپنی مالیت کے 40% کے برابر بلاسودی سرمایہ کی رقم پارٹنرشپ کے نام پر مل جائے توایسی کمپنی کا نقصان سے نفع کی طرف پلٹ آنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔یہ مسٹر گھوشن کی انتظامی صلاحیت کا ’’کمال‘‘ نہیں تھا بلکہ ’’بلاسودی سرمایہ کاری‘‘ کے مثبت اثرات کا نتیجہ تھا۔ نہ ہی جاپان کا کمپنیوںکے انتظام کرنےanagement کا طریقہ اس قدر ناقص تھا کہ وہ یورپ کے مینیجمنٹ کے طریقوں کے مقابلہ میں ناکام ہوگیا ہو۔ابھی چند سال پہلے تک یورپی اور امریکی دانشور جاپانی طرزکی مینیجمنٹ کی تعریفیں کرکر کے ان کے بہت سارے طور طریقوں کو امریکہ اور یورپ والوں کو جاپانی طریقے اختیار کرنے کی تلقین کررہے تھے۔ آخر ٹویوٹا اوراس جیسی سینکڑوں جاپانی کمپنیاں اسی جاپانی مینیجمنٹ اسٹائیل سے کام کرتی ہوئی ساری دنیا میں اپناایک مقام بناچکی تھیں۔آخر دنیا کا کون سا کاروباری شخص ایسا ہے جوony, Toshiba, Panasonic, Mitsubishi, Mitsui, Sumitomo, Fujitsu, NEC, Toyota, Honda اور ایسی ہی بے شمار کمپنیوں کو دنیا کی کامیاب کمپنیوں کی حیثیت سے نہیں جانتا؟اگر جاپان کاanagement Style یوروپی کمپنیوں کے مقابلہ میں ناقص ہوتاتو یہ ساری کمپنیاں دنیا میں اپنا مقام نہیں بناسکتیں۔اسلیے مسلسل نقصان میں جانے والی نِسّان کمپنی کو ایک ہی سال میں نفع آور کمپنی میں تبدیل ہوجانا نہ تو مسٹر گھوشن کا کوئی ’’کمال‘‘ ہے اور نہ ہی یوروپین طرزِ انتظام کا۔یہ اگر ’’کمال‘‘ ہے تو ’’بلاسودی‘‘ سرمایہ کاری کا۔ 3 کسی بھی سو فی صد سود پر چلنے والی کمپنی کو اپنی مالیت کی 40% رقم بغیر سود کے مل جائے تو اس کے نقصانات میں کمی آنا ایک فطری امر ہے۔ کسی بھی مقروض کمپنی کو ایک بڑی رقم بلاسودی سرمایہ کاری کے طور پر مل جائے تو اس کمپنی کا ایک نفع آور ادارہ بن جاناکوئی تعجب کی بات نہیں ہوسکتی۔ٹویوٹا کے علاوہ جب نِسّان کو بھی بلاسودی سرمایہ کاری نصیب ہوئی تو اس کے جو اثرات ہوئے ان کا موازنہ اس نِسّان سے کرکے دیکھا جائے جو پہلے سودی قرضوں کے تحت چل رہی تھی تو پتہ چل جائے گا کہ کسی بھی کمپنی پر ان دونوعیتوںکی سرمایہ کاری کے اثرات کا فرق کیا ہوسکتا ہے؟ (جاری ہے

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.