ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔۔بِلاسودی سرمایہ کاری (چوتھی قسط)

حسین خاں  ۔  ٹوکیو
ٹویوٹا کے اصولِ شراکت داری کی برکت
اس صورتِ حال میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی  موٹر کارکمپنی کو اپنی توسیع اور نئے نئے ماڈل ہر سال یا ہر 2, 3 سال میں نکالنے کے لیے اتنا سرمایہ درکار ہو جسے اس کے منافع کے جمع شدہ ذخیرہ سے پورا نہیں کیا جاسکے  اور ایسی صورت میں اگر سودی قرضوں سے اس کمی کو پورا کرنے پر بھی قدغن لگا دی جائے تو ایسی ضرورت مند کمپنی اس صورتِ حال میں کیا کرے؟  اس مسئلہ کا حل ٹویوٹا کمپنی نے وہی نکالا جسے ہم اسلام کے معاشی نظام کی تشریح کے وقت پیش کرتے ہیں۔پہلے تو سودی قرضوں سے پرہیز کی قسم کھانا خود اسلام کے معاشی نظام کا ایک حصہ ہے۔اس کے بعد  بلاسودی سرمایہ کاری کے لیے ہم بحیثیتِ مسلمان یہ نسخہ پیش کرتے ہیں کہ سود  کے بجائے پارٹنر شپ کا طریقہ اختیار کیا جائے۔چنانچہ ٹویو ٹا نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔

ایک سادہ کاغذ پر ٹویو ٹا کمپنی کے قواعد و ضوابط چھاپ کر اس کا نام ٹویو ٹا کمپنی کا Share قرار دے دیا کہ اگر کوئی بلاسودی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہو تو  جتنا بھی کہ سرمایہ وہ لگانا چاہتا ہو اتنی قیمت کے یہ شیر یعنی حصص خرید لے تو اس کی سرمایہ کے حد کے اندر ایسی سرمایہ کاری کرنے والے شخص یا کمپنی  کوٹویوٹا کا حقِ ملکیت مل جاتا ہے اور اس حد تک مل جاتا ہے جس حد تک کہ یہ حصص خریدے گئے ہوں۔
شروع شروع میں صرف تویودا خاندان ہی ٹویوٹا کمپنی کا سو فیصد مالک تھا۔لیکن اب یہ صرف 2 فیصد کا مالک ہے اور 98 فیصد ملکیت ان لوگوں یا ان کمپنیوں کی ہے جنھوں نے اس کے حصص خریدے ہیں۔شروع کی چھوٹی ٹویوٹا کے سو فیصد مالک ہونے کے مقابلہ میں موجودہ بڑی ٹویوٹا کی 2فی صد ملکیت ،رقم کے اعتبار سے پرانے سو فی صد سے بھی بہت بڑی ہے۔
بلا سودی سرمایہ کاری کے سبب تویودا  خاندان کے سرپر ہر وقت خطرہ کی یہ تلوارلٹکتی رہتی ہے کہ اس کمپنی کا  قانونی کنٹرول اس کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ نہ چلاجائے۔تویودا خاندان نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی۔اس خاندان کو اپنے حصص کا حق  اور منافع میں مسلسل اضافہ کا فائدہ تو ہمیشہ ملتا رہے گا ،خواہ یہ خاندان کمپنی کو کنٹرول کرے یا نہ کرے۔ جتنا اس خاندان نے اپنا سرمایہ لگایا ہے ، اس میں دوسروں کے بلاسودی سرمایہ کے اضافہ کی وجہ سے اس کے اپنے سرمایہ پراس کی منافع کی شرح کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ دوسروں کا لا محدودسرمایہ بھی اپنے محدود خاندانی سرمایہ کے ساتھ شراکت  داری کے اصول پر ملا کر ٹویوٹا بڑے بڑے پروجکٹس کو آگے بڑھاکر اس پر کمائی کرے۔اپنا ذاتی یا پورے خاندان کابھی ملا کرجو سرمایہ بنتا ہے صرف اسی سرمایہ سے کام کیا جائے تو اس پر نفع آوری انتہائی محدود ہوگی۔
کمپنی کے بانی کے لڑکے اور اسکے پوتے ( موجودہ صدر) بھی اس کمپنی کے صدر رہے ہیں، لیکن ٹویوٹا کی گذشتہ 73 سال کی تاریخ میں تویودا  خاندان سے دور کا کوئی تعلق نہ رکھنے والے افرادبھی ٹویوٹا کے کئی صدر رہ چکے ہیں۔اس کمپنی میں شروع میں بحیثیت کلرک یا مزدور یا بطور انجینئر داخل ہونے والے ہر فرد کے لئے یہ دروازہ ہر وقت کھلا ہے کہ وہ اپنی  محنت ،مشقّت اور صلاحیت سے ترقی کرتا کرتا ڈائرکٹر اور پھرصدر تک کے عہدے پر پہنچ جائے۔اس طرح کے اعلیٰ ترین عہدہ تک پہنچنے کے لیے تویودا خاندان کا فرد ہونا کوئی لازمی شرط نہیں ہے۔موجودہ صدر، اگرچیکہ کمپنی کے بانی کے پوتے ہیں، لیکن یہ بھی کئی سالوں سے ٹویوٹا کمپنی کی ملازمت کرتے ہوئے یہ ساری منزلیں کامیابی سے طئے کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچے ہیں،محض تویودا خاندان کے فرد ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ کئی سال اس کمپنی کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے اپنی اہلیت کی بناء پر ترقی کرتے ہوئے  اوراس کمپنی میں5 سال تک مختلف شعبوں میں دھکے کھانے کے بعد اب صدر کے عہد ہ تک پہنچے ہیں۔ اس خاندان کاکوئی فرد جیسے موجودہ صدرآ کی اُو تویودا اور ان کے والدآکی اُو اچیرو تویودا، اگر ٹویوٹا کے CEO چیف ایکزیکیٹیو بنے  ہیںتو اپنی محنت و قابلیت کے بل پر نہ کہ تویودا خاندان کے وارث ہونے کے سبب۔
اس سلسلہ میں میرے ایک سوال کے جواب میںٹویوٹا کے سرکاری ترجمان مسٹر پال نولاسکا نے مجھے ٹیلیفون پر  یہ بتایا کہ میں یہ سوال ان کو تحریری طور پر جاپانی زبان میں لکھ کر بھیجوں تاکہ وہ اس نازک سوال کا صحیح جو اب ٹویوٹا کے اعلیٰ ترین ذمہ داروںسے حاصل کرکے مجھے بھیج سکیں۔انھوں نے یہ جواب بھیجا:
’’ہم اس پر کوئی تبصرہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ تویودا خاندان کے حصص ٹویوٹا کمپنی میں کتنے فیصد ہیں؟ البتّہ میڈیا میں یہ بتایا جاتا ہے کہ تویودا خاندان کا حصہ صرف 2, 3  فیصد ہے۔ ہم صرف اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں  کہ تویودا خاندان مالیاتی، قانونی یا کسی اور اعتبار سے بھی  ٹویوٹا کمپنی کو کنٹرول نہیں کرتا۔‘‘
(
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تویودا خاندان نے، جس نے سو فیصد اپنے ذاتی سرمایہ سے اس کمپنی کو 1937 میں شروع کیاتھا،ٹویوٹا پر اپنا قانونی کنٹرول بر قرار رکھنے کے لیے  سودی قرضوںکے جنجال میں پھنسنے سے احتراز کیا۔ جب بھی کسی کمپنی کو اپنی مزید توسیع یا کسی نئے جدید ترین ماڈل نکالنے کے لیے اپنے موجودہ وسائل سے زائد سرمایہ کی ضرورت ہو تو وہ یا تو اپنا  بانڈond یعنی تمسّک جاری کرے گی، اور اس پر معقول سود کی ادائیگی کا لالچ دے کر عام مارکیٹ میں یہ تمسکات فروخت کرکے سودی سرمایہ بطورِ قرض حاصل کرے گی یابنکوں سے نئے سودی قرضے لے گی۔ چونکہ یہ سارے قرضے واپس دینے  ہوتے ہیں ، اس لیے کمپنی پر ان سود خور قرض خواہوں کا  کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ البتّہ اگر کمپنی یہ قرضے واپس نہ کرسکے اور دیوالیہ ہونے لگے تو پھر قرض خواہ اس کمپنی کو اپنے کنٹرول میں لینے کا حق رکھتے ہیں ۔ پرانے ناکام انتظامی عملہ کو نکال کر ان کی جگہ بہتر نئے انتظامی افسراں مقرر کرسکتے  ہیں تاکہ نئی انتظامیہ کے ذریعے اس کمپنی  کو نئے انداز میں چلاکر اپنے سودی قرضے آہستہ آہستہ واپس لے سکیں۔ اپنے کنٹرول کو قائم رکھنے کے لالچ میں سودی قرضوں کے جنجال میں پھنسنے کی صورت میں ہر وقت یہ خطرہ کی تلوار سر پر لٹکی رہتی ہے کہ سودی سرمایہ کے ذریعے کی گئی نئی سرمایہ کاری اگر کسی وجہ سے نفع بخش نہ رہ سکے تو سارے کا سارا کنٹرول سودی قرض خواہوں کے ہاتھوں میں جاسکتا ہے۔ تویودا خاندان نے ہمیشہ یہ خطرہ مول لینے سے پرہیز کیا جو سودی قرضوں کے سبب پیدا ہوسکتا تھا۔
اپنے خاندان  کے قانونی کنٹرول کی قربانی دے کر بھی انھوں نے بلاسودی سرمایہ کاری کی شکل اختیار کی ، جس کی اسلام بھی ہمیں ہدایت کرتاہے۔اس خاندان نے نفع و نقصان میں برابری کے اسلامی اصول کی طرح شراکت کی بنیادپر نئے سرمایہ کاروں سے بلاسودی سرمایہ حاصل کیا۔اس طرح  اس کو کبھی اپنے نفع کا کوئی حصہ بطورِ سود کسی کو ادا کرنا نہیں پڑا اور نہ ہی کسی کو سرمایہ واپس کرنے کی  کوئی ضرورت پیش آئی۔بلاسودی سرمایہ کسی کو واپس کرنا نہیں ہوتا، اس لیے یہی سرمایہ بار بار نئے پراجیکٹ یا نئے اسمبلی پلانٹ لگانے یا نئے نئے ماڈل نکالنے جیسے تعمیری اورمثبت مقاصد کے لیے بار بار استعمال ہوتا رہا۔سودی قرضہ ہوتا تو کما کما کر مزید کمپنی میںلگانے کے بجائے سود خوروں کو واپس کر نا پڑتا۔اس لئے سودی قرضوںکی کیچڑ میں لت پت پھنسی ہوئی کوئی کمپنی جس پر سود کی ادائیگی کے علاو ہ اصل رقم واپس کرنے کی ذمہ داری بھی ہو ، وہ بلاسودی سرمایہ کوبار بار استعمال  کرنے والی ٹویوٹا جیسی کمپنی سے مسابقت میں کبھی جیت نہیں سکتی کیونکہ اس کو اپنا منافع اور اصل رقم کسی کو واپس کرنا نہیں ہوتا جبکہ سودی قرضوں والی کمپنی کو اپنے منافع کا ایک حصہ سود کی ادائیگی کے لیے اور بقیہ ساری رقم قرض کی ادائیگی کے لیے واپس دینی پڑتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ٹویو ٹا اپنے سے آگے نکلی ہوئی ساری کمپنیوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی دنیا میں سب سے آگے نکل گئی۔دنیا میں کئی دہائیوں سے جو کمپنیاں کریسلر، فورڈ اور جنرل موٹرز کی طرح بالترتیب نمبر 3 ،نمبر 2 ،  اورنمبر ۱ تھیں وہ سب پیچھے رہ گئیں ، کیونکہ یہ سب سودی قرضوں کی وجہ سے اپنے منافع کا ایک حصہ سود خوروں کو دینے کے لیے اور بقیہ رقم قرض کی ادائیگی کے نام پر واپس کرنے پر مجبور تھیں۔ساری محنت کرکے بھی ان کے ہاتھ بچتا بہت کم تھا جبکہ ٹویوٹا کے پاس سارا منافع بھی اور اصل رقم بھی سب اسی کے ہاتھ میں محفوظ رہتی تھی۔اس سے یہ اپنا کاروبار اور زیادہ تیزی سے آگے بڑھانے کی پوزیشن میں ہوتی تھی، جبکہ دوسری کمپنیوں کے پاس آگے مزید کام بڑھانے کے لیے اپنی بچت، ٹویوٹا کے مقابلہ بہت ہی کم ہوتی تھی۔ ہر مالی سال کے اختتام پر ٹویوٹا کی منافع سے جمع شدہ پونجی Retained Earnings میں اضافہ ہوتا رہا اور دوسری مسابقت کر نے والی کمپنیوں کے سود کے بوجھ میں اضافہ اورجمع شدہ پونجی ،اگر کچھ کبھی کبھی ہوتی بھی تو اس میں کمی ہوتی رہی۔ اس فرق کی وجہ سے وہ سب پیچھے ہوتی گئیں اور ٹویوٹا تیزی سے آگے بڑھتی رہی۔
ٹویوٹا ہی دنیا میں واحد ایسی کمپنی تھی جو صرف بلاسودی سرمایہ سے کام کررہی تھی۔ہرکاروباری سال کے اختتام پر  اس کی   Retained Earningsیعنی پچھلے منافعوں سے جمع شدہ پونجی میں جس تیزی سے اضافہ ہوتا رہا ہے، کوئی دوسری کمپنی اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کا مقابلہ تو کیا کرتیں وہ اپنے سودی قرضوں کے بوجھ تلے ہر سال دیوالیہ سے قریب سے قریب تر ہوتی چلی گئیں، جبکہ ٹویوٹا کی پچھلے منافعوں سے جمع شدہ پونجی ہر سال بڑھتے بڑھتے اب 12 ٹریلین ین یعنی تقریباً  120 بلین ڈالر سے اوپر پہنچ گئی ہے۔ اس میں تویودا خاندان کا 2% حصہ تقریباً.2 بلین ڈالر کا بنتا ہے۔اس خاندان نے ابتداء میں 1ملین ڈالر کی آدھی سے بھی کم رقم سے یہ کمپنی شروع کی ہوگی،لیکن  شراکت داری کے اصول پر8 فی صد دوسروں کی  بلا سودی سرمایہ کاری کے سبب  اب اس خاندان کی ابتداء  کی آدھے ملین ڈالر سے بھی کم معمولی سی رقم بڑھتے بڑھتے اب.2 بلین ڈالر سے بھی زائد ہوگئی ہے۔ بلاسودی سرمایہ کاری کے بجائے اگرٹویاٹا بھی جنرل موٹرز یا کریسلر کی طرح سودی قرضے لے کرترقی کرنے کی کوشش کرتی تو آج یہ بھی دنیا کی نمبر کمپنی بننے کے بجائے انہی کی طرح دیوالیہ ہوچکی ہوتی۔
اس کو 2008 کے مالی سال میں یعنی اس  کے 1950 کے پہلے نقصان کے تقریباً 60 سال بعد دوسرا تقریباً 5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا ، اس نقصان کواسکی پچھلی جمع شدہ پونجی20 بلین ڈ الر سے کم کریں تب بھی اس کے پاس 115بلین ڈالرکی جمع شدہ پونجی باقی بچتی ہے۔جس کمپنی کے پاس اس قدرفالتو رقم موجودہ سخت حالات میں بھی آزادانہ طور پراپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کے لیے موجود  ہو، اس کے ساتھ کوئی بھی دوسری موٹر کار کمپنی کیا مسابقت کرسکتی ہے؟ اسی وجہ سے  اس کو دنیا کی نمبر کمپنی بننے کا مقام حاصل ہوا۔ یہ ہے وہ برکت جو بلاسودی سرمایہ کاری کی خاطر تویودا خاندان کو اپنے قانونی کنٹرول کی قربانی دینے کے نتیجہ میںٹویوٹا کو نصیب ہوئی۔
(جاری ہے)

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.