ٹویوٹا کی کامیابی کا راز (پانچویں قسط)-

hussen-khan

حسین خان ٹوکیو

حسین خاں  ۔  ٹوکیو
اس موضوع پر میری پچھلی تحاریر پر کچھ غلط فہمیاں، سوالات اور اعتراضات1)
ایک سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ
’’اگر ’’داداجان ‘‘ نے سُود کیخلاف اپنے ملازمین اور ہنرمندوں کے سامنے تقاریر کیں تو کون سا معرکہ سرانجام دیا یا سُودی نظام کیخلاف کونسی روایت چھوڑی کہ اُسکی تقلید کیجائے ؟ تاریخ تو تب بنتی جب وہ سُود پر قرضہ نہ لیتے ۔سُود پر قرضہ حاصل کرنے کے باجود بھی حسین خان صاحب ٹویوٹا کو ہیرو بناکر پیش کررہے ہیں جو ناقابلِ فہم بات ہے ۔اب ذرا سوچیئے کہ اگر آپ کی تاویلات ہی کو درست مان لیا جائے تو یہ بات تو آپ کی تحریر سے ثابت ہوگئی کہ سُودی پیسہ سے بہرحال ٹویوٹا نے اپنے آپ کو دوبارہ زندہ کیا اور آج فروختوں کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بنگئی ہے ۔اب ذرا بتائیے کہ جو بچّہ بڑا ہی سُودی پیسے سے ہوا ہے اُسے آپ کہتے ہیں کہ یہ غیر سُودی نظام کے طفیل ہوا ہے، عجیب وغریب سی بات ہے ۔…………جس ٹویوٹا کا ازسرِ نو جنم ہی سُود سے ہوا اُسے بے سُود ثابت کرنے پر حسین خان صاحب کا علم واقعی قابلِ تعریف وتحسین ہے ۔………..بقو ل حسین خان صاحب سُود دینے کو تو ٹویوٹا کے دادا جان نے ناپسند کیا تھا لیکن یہ تو ہر قرض لینے والا کرتا ہے ۔اب اگر تویودا صاحب سُود کیخلاف ہیں تو پھر سُود لینے سے متعلق اُنکے کیا خیالات ہیں ؟….‘‘

میں نے یہ تو کہیں نہیں لکھا ہے کہ ٹویوٹا ایک مسلمان کمپنی ہے جو سود کو حرام سمجھتی ہے، اس لیے سودی قرضوں سے پرہیز کرتے ہوئے بلاسودی سرمایہ کاری سے کام کررہی ہے۔ ٹویوٹا کے پاس سود کو حرام یا حلال سمجھنے کا کوئی تصور نہیںہے۔دنیا کی ساری غیر مسلم کمپنیوں کی طرح ٹویوٹا بھی سود لیتی بھی ہے اور دیتی بھی ہے، لیکن سودی قرضوں سے اپنی سرمایہ کاری نہیں کرتی۔سرمایہ کاری ساری بلاسودی سرمایہ سے کرتی ہے۔ سودی سرمایہ سے سرمایہ کاری نہیں کرتی تو پھر کیوں سود لیتی بھی ہے اور دیتی بھی ہے؟اس کے پاس بلاسودی سرمایہ اتنا زیادہ فالتو پڑا ہوا ہے کہ بہت سی بنکوں کے پاس بھی نہیں ہوگا۔اس لیے و ہ اپنے اس بلاسودی سرمایہ کو بنکوں کی طرح سودی کاروبار کے لیے استعمال کر کے اس سے سودی نفع بھی کماتی ہے۔ اس بات کی مزید تفصیلات آئندہ قسطوں میں انشاء  اللہ آئیں گی۔
وہ تو اپنے فائدہ یا نقصان کو سامنے رکھ کر، اپنے ماضی کے کچھ تلخ تجربات سے سبق سیکھ کر اور اپنی دور اندیشی سے اس حکمت عملی کو اختیار کرنا بہتر سمجھ کرکر رہی ہے کہ ٹویوٹا کی توسیع و ترقی کسی قیمت پر سودی قرضوں سے نہیں بلکہ صرف اور صرف بلاسودی سرمایہ سے کرنی ہے۔ اس کی اس دنیوی حکمتِ عملی نے اسے کاروبار میں بہت کامیاب کردیا ہے۔ اس  حقیقت کے سبب مسلمانوں کو بھی اپنے ایمان کو تقویت پہنچانا چاہیے کہ اگر ایک غیر مسلم بھی اسلام کے کسی ا یک طریقے کو یا اسلام کی کسی تعلیم کو اپنے دنیوی فائدہ کے لیے بطور ایک پالِیسی یا مصلحت کے اختیارکرتا ہے تو اسلام کی وہ تعلیم بھی اس کی کامیابی کا ایک  بہت بڑازینہ بن جاتی ہے۔اتنابڑا کہ ٹویوٹا اسلام کی اس تعلیم پر ، یہ جانے بغیر کہ اسلام میں بھی ایسی کوئی تعلیم ہے ، محض اپنی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار کرتی ہے تو اس کے وہ سارے رقیب جو اس پر عمل نہیں کررہے ہیں ، وہ سب  چِت ہوجاتے ہیں اور ٹویوٹا محض اس اسلامی تعلیم والی پالیسی کی بناء پر دنیا کی سب سے بڑی اور درجہ اوّل کی گاڑی ساز کمپنی بن جاتی ہے۔ اس سے مسلمانوں کو بھی اور غیرمسلموں کو بھی  یہ پتہ چلتا ہے اور ایک جیتا جاگتا ثبوت سامنے آتا ہے کہ اسلام کی ایک ایک تعلیم میں کتنی جان ہے کہ اس پر عمل پیرا ہونے والی ایک غیر مسلم کمپنی بھی کسی وجہ سے اگر اس کومحض اپنی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار کرے تو اس کے سبب وہ  اپنے کاروبار میں بے انتہاء کامیاب بھی ہورہی ہے اوراپنی گاری سازی کی لائین میں سرخرو بھی ہورہی ہے اور اس پر عمل نہ کرنے والی  جنرل موٹرز اور کریسلر جیسی0 سال سے زائد عرصہ تک دنیا کی نمبر اور نمبر   کی پوزیشن میں رہنے والی کمپنیاں کساد بازاری کے ایک ذرا سے جھونکے سے دیوالیے کا شکار ہوگئیں، اور جو دوسری کمپنیاں دیوالیہ سے بچ گئیں وہ مسابقت  کی دوڑمیں اپنے سودی قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے ٹویوٹا سے جیت نہیں سکیں۔
اپنے آپ کو دیوالیہ سے بچانے کے لیے صرف ایک دفعہ 1950 میں ٹویوٹا کو مجبوراً سود  پر قرض لینا پڑا تھا اور اسی انتھائی تلخ تجربہ کی وجہ سے اس نے آئندہ  سے سود ی قرضوں سے پرہیز کرنے اور بلاسودی سرمایہ کاری سے اپنی کمپنی بڑھانے کی پالیسی اختیار کی۔ اس نے یہ حکمت عملی اس لیے نہیں اختیار کی کہ قران میں ایسا لکھا ہوا ہے۔ اس نے تو اپنے ایک تلخ تجربہ کی بناء پر آئندہ کے لیے اس حکمتِ عملی کو اختیار کرنا بہتر سمجھا۔
اس ایک دفعہ کی بات کو generalize کرنا ، اس کی 73 سالہ تاریخ پر پھیلادینااور یہ کہنا کہ وہ ہمیشہ ہی ایسا کرتی رہی ہے، حقایق کے خلاف ہے۔ اس کی پوری تاریخ پر اس بات کو پھیلادینا کہ سودی پیسہ ہی سے اس نے اپنے آپ کو زندہ رکھا ہوا ہے، ’’ یہ بچہ بڑا ہی سودی پیسے سے ہوا ہے‘‘،غلط ہے۔اپنی زندگی میں صرف ایک دفعہ بچے نے سُوّر کا گوشت کھالیا تھا  کیونکہ وہ اس وقت بھوک کے مارے قریب المرگ تھا۔یہ نہیں کہ اس نے پوری زندگی ہی سُوّر کا گوشت کھا کھا  کراپنے آپ کو بڑا کیا ہے۔ کسی عالمِ دین سے یہ مسئلہ پوچھ لیجیے کہ بھوک کی حالت میں قریب المرگ آدمی کو سور کے گوشت کے علاوہ کوئی اور چیز کھانے کو نہ ملے تو ایسی حالت میں اپنی جان بچانے کے لیے اگر مجبوراً ایک دفعہ سور کا گوشت کھا لیا جاے تو وہ اسلام میں جائز ہے یا نہیں۔ایک مسلمان  کوبھی اللہ تعالیٰ نے یہ چھوٹ دی ہے تو ایک غیر مسلم کمپنی سے یہ توقع کرنا کہ وہ مسلمانوں سے بھی زیادہ اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے دکھائے تو ہم  تجھے مانیں گے اورتیری تعریف کریں گے ،ورنہ تجھے اور تیری تعریف کرنے والوں کو جھوٹا سمجھیں گے، کیونکہ تو نے ایک دفعہ ایسی غلطی کردی ہے تو ہمیشہ ہی تو نے ایسا کیا ہوگا۔اگر ٹویوٹا نے ہمیشہ ہی سودی قرضوں سے ترقی کی ہے تو ایسا دعویٰ کرنے والے کا فرض ہے کہ وہ اس کا کوئی ثبوت بھی پیش کرے جبکہ میں اپنے ان قسط وار مضامین میں ٹویوٹا کی غیر سودی سرمایہ کاری کے ثبوت مختلف جہتوں سے پیش کررہا ہوں۔
معترض کی تضاد بیانی کا عالم یہ ہے کہ ایک طرف تو فرماتے ہیں کہ ’’یہ بچہ بڑا ہی سودی پیسے سے ہوا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ سُودی پیسہ سے بہرحال ٹویوٹا نے اپنے آپ کو دوبارہ زندہ کیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یعنی یہ کہ ٹویوٹا بڑی ہی سودی قرضوں سے ہوئی ہے اور دوسری طرف اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ٹویوٹا کے پاس اتنا فاضل سرمایہ ہے کہ اسے  سودی قرض لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔معترض کا  یہ بیان ملاحظہ فرمائیے:
’’اگر کسی کمپنی کے حِصص ضرورت سے زیادہ فروخت ہورہے ہوں تو اُسے بھی سُودی قرض کی ضرورت نہیں پڑتی اور آج کی ٹویوٹا کیساتھ بھی ایسا ہے ۔اُسے اسلئے سُودی قرض کی ضرورت نہیں ہے کہ حِصص کی فروخت کی وجہ سے وافر مِقدار میں پیسہ دستیاب ہے جو سرمایہ کاری کیلئے ہے ۔اب ٹویوٹا کے پاس اتنا فاضل سرمایہ موجود ہے کہ وہ اُسے ٹویوٹا فائنانس کارڈ کے ذریعے لوگوں کو سُودی قرضے دے رہا ہے جس طرح دیگر سُود پر مبنی کریڈٹ کارڈکمپنیاں دیتی ہیں ۔‘‘
اس بیان میں معترض نے اپنی تضاد بیانی خودواضح کردی ہے کہ جس بچے  کے بارے میںوہ یہ بتا رہے تھے کہ یہ بڑا ہی سودی قرضہ سے ہوا تھا ،اب اس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس کے پاس وافر مقدار میں سرمایہ دستیاب ہے، اُسے سودی قرض لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے علاوہ علمِ معاشیات میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے جو اب تک کسی کو نہیں سوجھی تھی۔ معترض نے ایک نیا انکشاف یہ کیا ہے کہ ’’اگر کسی کمپنی کے حِصص ضرورت سے زیادہ فروخت ہورہے ہوں تو……‘‘کمپنی کے حصص کے بارے میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ یہ غیر فروخت شدہ حالت میں کہیں بےکارپڑے ہوئے تھے، یہ جب بکنے لگے تو کمپنی کے پاس بلاسود سرمایہ کاری کے لیے وافر مقدار میں پیسہ آنے لگا۔ایسا کبھی کہیں نہیںہوتا۔ سارے حصص شروع ہی سے فروخت شدہ ہوتے ہیں۔ ان کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔ جب یہ زیادہ قیمت سے بکتے ہیں تو کمپنی کی مالیت میں ضرور اضافہ سمجھا جاتا ہے ۔لیکن یہ سرمایہ کمپنی کے ہاتھ نہیں آتا کہ جس کے ذریعہ کمپنی کوئی سرمایہ کاری کرے۔ اس کا نفع تو سارے کا سارا ان حصص کے مالکان کو جاتا ہے جنھوں نے یہ حصص سستے میں کبھی خریدے تھے اور جب  ان کی قیمت بڑھی تو انھیں فروخت کیا اور سارا نفع اپنی جیب میں رکھا اور کمپنی کو سرمایہ کاری کے لیے کچھ نہیں ملا۔
ٹویوٹا کے پاس فاضل سرمایہ اس کمپنی کے اپنے منافع  سے جمع شدہ پونجیetained Earnings سے آیا،3 سال میں صرف 2دفعہ، 1950 اور 2008 میں اس کو نقصان ہوا  تھا،بقیہ 71 سال یہ اپنا منافع جمع کرتی رہی جو اب بڑھتے بڑھتے 120 ارب ڈالر ہوگیا ہے، بلکہ ان دونوں نقصانات کو بھگتنے کے بعد بھی ابھی تک اس کے پاس 120  ارب ڈالر کا بلاسودی سرمایہ ، اس کی گذشتہ 71 سال کی کمائی ہوئی دولت  کے طور پر موجود ہے اور اس فالتو سرمایہ سے  یہ گاڑیوں کی فروخت کے علاوہ مختلف دوسری شکلوں سے بھی مزید پیسہ کمارہی ہے۔
اس کے علاوہ کبھی کبھی کمپنی نے  اپنے نئے حصص فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تو ان نئے حصص کی فروخت سے ٹویوٹا کے پاس سرمایہ آیا۔ یہ عام طور پر Convertible Bonds  کی شکل میں آتا ہے۔ یعنی پہلے تو تمسکات جاری کرکے سرمایہ حاصل کرلیا جاتا ہے ۔پھر یہ سرمایہ واپس کرنے کے بجائے ان تمسکات کو حصص کی شکل میں تبدیل کرکے یہ حصص سرمایہ کے بدلہ میں دیے جاتے ہیں۔تویودا خاندان نے نئے حصص اتنے زیادہ فروخت کیے کہ اب ان کا حصہ صرف فیصد کا رہ گیا اور 98 فی صد حصص کے مالکان دوسرے لوگ ہیں۔ ان ہی 2طریقوں سے ٹویوٹا نے بے انتہاء بلاسودی سرمایہ حاصل کیا ہے اور اسی سے ساری ترقی کے منازل طئے کیے ہیں۔8 فیصد حصص کے مالکان قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے موقع بہ موقع فائدہ اٹھاکر ان حصص کو فروخت کرکے نفع اپنی جیب میں رکھتے ہیں ۔ٹویوٹا کو اس سے کچھ نہیں ملتا۔ جب یہ حصص سستے ہوجائیں تو یہی لوگ انھیں دوبارہ خرید کر ان کے پھر مہنگے ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں تاکہ ان پر دوبارہ نفع کماسکیں۔
معترض نے مزید یہ فرمایا ہے کہ
’’حسین خان صاحب …… ۱۸ جولائی کو شائع ہونیوالے اپنے تازہ ترین کالم(چوتھی قسط) میں فرماتے ہیں کہ ٹویوٹا کی کُل جمع پونجی ۱۲۰ ارب ڈالر ہے تو وہ ذرا یہ بھی بتادیں کہ اِس خبر کا ذریعہ کیا ہے ؟ کیا ٹویوٹا نے اعلان کیا ہے کہ اُس کے پاس ۱۲۰ ارب ڈالر کی رقم ہے ؟اگر ایسا کوئی اعلان موجود نہیں تو پھر یہ قیاسی اعداد وشمار کیوں پیش کئے جارہے ہیں ؟‘‘
ٹویوٹا کے گذشتہ 10 سال کے اعداد و شمار اس کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ میں انشائاللہ اپنی اگلی قسطوں میں ان ہی اعداد و شمار کے ذریعہ بھی بتاؤں گاکہ ٹویوٹا کی ترقی غیر سودی سرمایہ کاری سے ہوئی سے نہ کہ سودی قرضوں سے۔ اس کے 2010 کے مالیاتی سال کے مالیاتی اعداد و شمار کا 33 صفحات پر مشتمل خلاصہ مندرجہ ذیل سائٹ پر مل سکتا ہے۔  http://www.toyota.co.jp/en/ir/financial_results/2010/year_end/summary.pdf
اس پر ٹویوٹا کی Retained Earningsپچھلے منافعوں کی جمع شدہ پونجی  11,568,602 ملین جاپانی ین  مل جائے گی ۔ اسی1.57 ٹریلین ین کو 90 ین فی ڈالر کے حساب سے ڈالر میں تبدیل کر میڈیا کے اخبارات اور کتابوں وغیرہ میں 120 ارب ڈالر لکھا جا تا ہے۔ یہ میری قیاس آرائی نہیں بلکہ خود ٹویوٹا کی طرف سے شائع شدہ اعداد و شمار ہیں۔ گاہے بگاہے میڈیا میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔ بہت سے گاڑیوں کے کام کرنے والوںپاکستانیوں کوبھی یہ پتہ ہے کہ ٹویوٹا کے پاس 12 ٹریلین ین ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے نہ کہ میری کوئی قیاس آرائی۔
مزید سوالات کا جواب انشاء اللہ اگلی قسط میں دیا جائے گا۔آپ چاہیں تو مزید سوالات، اعتراضات اوراچھے یا برے، تنقید یا تعریف کے تبصرے درجِ ذیل ای میل پر بھیج سکتے ہیں
Contact: cj@ourquran.com
ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔۔بِلاسودی سرمایہ کاری
(چھٹی قسط)
حسین خاں  ۔  ٹوکیو
کچھ غلط فہمیاں، سوالات اور اعتراضات  (2)
میں نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ ٹویوٹا کوئی اسلامی کمپنی ہے اور یہ کوئی سودی کاروبار نہیں کرتی۔ یہ سودی کاروبار سودی نفع آوری کے لیے کرتی ہے ۔ یہ سود لیتی بھی ہے اور سود دیتی بھی ہے۔ اس کو لوگ ٹویوٹا بنک بھی کہتے ہیں ۔ ہر بنک کا کام سستی شرحِ سودپرقرضے لینا اور مہنگی شرحِ سود پر قرضے دیناہوتا ہے۔ یہی ہربنک کی کمائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ کام ٹویوٹا بھی کرتی ہے۔ لیکن میں نے اس ہٹ کر اب تک یہ لکھا ہے اور مزید لکھوں گا (انشاء اللہ) کہ ٹویوٹا اپنی سرمایہ کاری سودی قرضوں سے نہیں بلکہ بلاسودی سرمایہ سے کرتی ہے۔ یعنی یہ اپنی توسیع، نئی نئی شاخیں کھولنے یا نئے اسمبلی پلانٹ لگانے یا نئے نئے ماڈل نکالنے وغیرہ جیسے کاموں کے لیے سودی قرضوں کو استعمال نہیں کرتی۔
اس کی ویب سائٹ پر 2000 ؁کی پچھلے منافعوں کی جمع شدہ پونجی یعنیetained Earnings جاپانی ین میں 6,014,125 ملین یعنی 6 ٹریلین ین بتائی گئی ہے جسکو ہم فی ڈالر00 ین کے حساب سے تقریباً 60 ارب ڈالر کہہ سکتے ہیں۔ جس کمپنی کے پاس0 سال پہلے سے اتنی بڑی رقم موجود ہو اس کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنی ترقی کے لیے مزید سودی قرضے لے؟ وہ اپنی ساری ترقیات اپنی ہی اب تک کی جمع شدہ پونجی سے کرسکتی ہے۔
لیکن سودی کاروبار کے ذریعہ ایک بنک کی طرح وہ اپنی جمع شدہ پونجی کو اونچی شرحِ سود پر گاڑیاں خریدنے والوں کو سودی قرضے دےتی ہے۔اس کے باوجود بھی اس کے پاس اپنی فالتو رقم بچ جائے تو ایسی اپنی بچی ہوئی رقم کو اونچی شرحِ سود پر بنکوں میں Fixed دپازٹ کے طور پر جمع کرکے، ان پر سودی منافع حاصل کرتی ہے۔ خود اپنے کاغذ کے ٹکڑے بانڈز یعنی تمسکات کے طور پر انتھائی سستی شرحِ سود پر فروخت کرکے سرمایہ حاصل کر تی ہے اور اسی سستے سرمایہ کو اونچی شرحِ سود پر دوسروں کو یا اپنے گاہکوں کو قرض دے کر سودی نفع بھی بنکوں کی طرح کمانے والا کام بھی کرتی ہے۔اگر اس معاملہ میں وہ ہمارے اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کرتی تو کیا ہمیں اس کے اس عمل کو بھی دریا برد
کردینا چاہیے جہاں وہ عمل کر رہی ہو اور اس سے جاکر یہ کہنا چاہیے کہ تو جتنا کچھ عمل کررہی ہے ،وہ بھی مت کر؟ہمارا فرض اب کیا یہ بن جاتا ہے کہ ہم ٹویوٹا سے کہیں کہ اگر تم بنک جیسے سودی کاروبار سے پرہیز کے لیے تیا ر نہیں ہو تو اپنی کمپنی کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری بھی ضرور سودی قرضوں ہی سے کیا کرو اور بلاسودی سرمایہ کاری کی ساری کوششوں
سے توبہ کرلو؟کیا ہمارے لیے یہ اچھی بات نہیں ہے کہ ایک غیر مسلم کمپنی اسلامی تعلیمات پر ایمان کے بغیر اپنی نفع ونقصان کی حکمت عملی کے طور پر کسی اسلام کی تعلیم پر عمل کرکے اور محض اسی وجہ سے ترقی کرکے دنیا کی ساری گاڑی ساز کمپنیوں سے آگے بڑھکر دنیا کی نمبر کمپنی بن گئی ہو تو یہ بات ہمارے ایمان کی تقویت اور اسلامی تعلیمات کی افادیت اور ان کی اہمیت پر یقینِ کامل کا باعث بنے؟

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.