کمیونٹی میںانتشار پیدا کرنے کی جڑ سفارت خانہ کی ’غیر جانبداری‘ ہے
حسین خاں ۔ ٹوکیو
جاپان میں کئی اسلامی تنظیمیں بھی ہیں اور رفاہی بھی، اور روز نئی نئی بنتی جارہی ہیں۔ جتنی زیادہ یہ بنیں انھیں خوش آمدیدکیا جاتا ہے کیونکہ ان کی تعداد میں اضافہ سے کمیونٹی میں دینی بیداری میںاضافہ اور اس کی فلاح وبہبود میں اور زیادہ ترقی ہوگی۔ لیکن ’پاکستان ایسوسی ایشن‘ ایک ایسا نام ہے کہ اس نام پر ایک سے زیادہ تنظیمیں وجود میں آجائیں تو اسے کمیونٹی میں انتشار کی علامت سمجھا جاتاہے اور اس انتشار میں اضافہ اس لیے ہو جاتا ہے کہ سفارت خانہ کمیونٹی کے اختلافات سے دور رہ کراپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ غیر جانبداری کا کردار ایک ہیجڑے والا کردار ہوتا ہے جو اپنے آپ کو نہ مرد کہتا ہے اور نہ ہی عورت۔غیر جانبداری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کمیونٹی میں عہدوں کے لالچی لوگ اپنے آپ کو صدر، نائب صدر اور جنرل سکرٹری کہلوانے کے لیے خواہ دس تنظیمیں بنالیں ، سفارت خانہ ان سب کو ایک ہی نظر سے دیکھے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ سفارت خانہ کی نظر میں 5 آدمیوں کا پاکستان ایسوسی ایشن کا صدر بھی 1,000 پاکستانیوں کے صدر کے برابر ہوگا۔کیا یہ انصاف پر مبنی رویہ ہے؟
اس طرح سفارت خانہ ہر ایک کو گھاس ڈالنے تیار ہے ،اس لیے ہر منچلے کی ہمت افزائی ہوتی ہے کہ وہ بھی کوئی ویلفیر ایسوسی ایشن کے بجائے ایک نئی پاکستان ایسوسی ایشن بنالے تو اس کی بھی سفارت خانہ کی طرف سے اتنی ہی ہمت افزائی ہوگی جتنی کہ ایک ہزار بندوں والی پاکستان ایسو سی ایشن کے لیڈروں کی مل رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ کمیونٹی میں انتشار کم ہونے کا بجائے اور مزید بڑھتا چلاجارہا ہے۔
غیر جانبداری کی کہانی اس طرح شروع ہوئی تھی کہ پچھلے سفیر کامران نیاز صاحب کی یہ بدنامی بہت پھیلی ہوئی تھی کہ وہ کسی ایک خاص گروپ کی طرف زیادہ جھکے ہوئے ہیں۔ اس بدنامی کے داغ کو دھونے کے لیے انھوں نے اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کی پوری کوشش کی۔ جب نئے سفیرہز ایکسلنسی نور محمد جامدانی صاحب تشریف لائے تو ان کو بھی یہی بریفنگ دی گئی کہ وہ بھی اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھیں اور کسی ایک گروپ کی طرف زیادہ نہ جھکیں۔ اس لیے انھوں نے بھی اسی غیر جانبداری کی پالیسی کو جاری رکھا۔
لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ تینوں پاکستان ایسوسی ایشنز نے اپنے آپ کو تحلیل کرنے ایک 9 رکنی کمیٹی بنائی اور اس نے ایک الیکشن کمیشن مقرر کیا۔ اس کو ساری پاکستان کمیونٹی نے قبول کیا اور اس پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانیوں نے ہزاروں کی تعداد میں اس الیکشن کمیشن کی نگرانی کے تحت الیکشن میں اخیر وقت تک بھرپور حصہ لیا۔ اس دن دھاڑے ظہور پذیر ہونے والی حقیقت سے سفارت خانہ اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ اس کو یہ فیصلہ کرنا چاہیئے کہ یہ سارا پروسِسrocess صحیح ہوا یا غلط؟ اگر غلط ہوا ہے تو سفارت خانہ بتائے کہ اس میں کیا غلطیاں ہوئیں اور یہ کہ آیا وہ غلطیاں اتنی شدید تھیں کہ وہ اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرسکتا۔اور اگر یہ الیکشن صحیح طریقے سے ہوئے ہیں تو وہ اس کے نتائج کو بھی تسلیم کرے۔ اس مرحلہ پر غیر جانبداری غیر اصولی بھی ہے اور کمیونٹی میں مزید انتشار پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ہارنے والے لوگ دوسری ایسوسی ایشن بنائےں تو سفارت خانہ اسے بھی برابر کی نظر سے دیکھے گا۔ اس طرح ہر پریفیکچر میں کئی کئی پاکستان ایسوسی ایشنز بنتی چلی جائیں تو سفارت خانہ ان سب کو اپنی ’غیر جانبداری‘ کی پالیسی کے تحت برابر کی نظر سے دیکھے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کمیونٹی میںخوب انتشار پھیلے ۔ دوسرے الفاظ میں سفارت خانہ، ہزاروں پاکستانیوں نے جس الیکشن میں حصہ لیا ہے ، اس پرلات مار کر اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا ،لیکن ہر 5 آدمیوں کی اگر سینکڑوں پاکستان ایسوسی ایشنز بنیں گی تو ان سب کو تسلیم کرے گا اور ان سب کو برابر کا درجہ دے گا،کیونکہ ’غیرجانبداری‘ کی پالیسی کا تقاضہ یہی ہوگا۔
اگر حکومتِ پاکستان بھی اسی طرح کی ’غیر جانبداری‘ پر اتر آئے تو ایک دن بھی حکومت نہیں چل سکے گی۔ کسی ملک کا سفیر مقرر کرنا ہو اور حکومت کہے کہ ہم تو ’غیر جانبدار‘ ہیںتو پھر فیصلہ کا اختیار کسے ہوگا؟ اس معاملہ میں تو حکومت کو خود کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا، خواہ دنیا یہ طعنے دیتی رہی کہ فلاں سفیر کے تقرر میں جانبداری سے کام لیا گیا ہے۔ ایسے طعنوں کی پرواہ کیے بغیر حکومت کوئی نہ کوئی سٹینڈtand لینے پر مجبور ہوتی ہے۔ حکومت کسی کو کوئی لائسنس دیتی ہے یا کوئی کنٹیریکٹ دیتی ہے تو کئی فریقوں میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرنے پر مجبور ہے۔ مخالفین یا ہارنے والے جنھیں لائسنس یا کنٹریکٹ نہیں ملا،وہ تو لازماً یہ کہیں گے کہ حکومت نے جس کسی کو بھی یہ لائسنس یا کنٹریکٹ دیا ہے ۔ اس میں ’جانبداری‘ سے کام لیا گیا ہے۔ لیکن اس طرح کے ہارنے والوں کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر حکومت کوئی نہ کوئی فیصلہ کر نے پر مجبور ہوتی ہے اور کسی نہ کسی کو وہ لائسنس یا کنٹریکٹ دیتی ہے اور یہ وضاحت کرتی ہے کہ کسی بھی فریق کو یہ کیوں دیا گیا ہے؟ ’غیر جانبداری‘ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کسی کو بھی لائسنس یا کنٹریکٹ ہی نہ دے۔
اسی طرح ضروری ہے کہ سفارت خانہ اپنا کوئی معیار بنائے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرے کہ کونسی پاکستان ایسوسی ایشن ایسی ہے جو اس معیار پر پوری اترتی ہے ، اسی کو سفارت خانہ تسلیم کرے اور باقی سب کو لات مارے۔ اس کے بغیر پاکستانیوں میں انتشار نہیں روکا جاسکتا۔ جس کسی کو بھی سفارت خانہ Recognize کرے اس کے ساتھ کچھ امتیازی سلوک بھی کرے تاکہ یہ پتہ چلے کہ سفارت خانہ کی تسلیم کردہ ایسو سی ایشن کو سفارت خانہ کی جانب سے کیا مراعات دی جاتی ہیں اوراس کے ساتھ کیا خصوصی سلوک کیا جاتا ہے جو دوسروں کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔
مثال کے طور پر سفارت خانہ کے خصوصی دعوت نامہ ہرکس و ناکس کو نہیں بلکہ صرف اسی ایسوسی ایشن والوں کو دیے جائیں جس کو سفارت خانہ نے تسلیم کیا ہے اور سفیر صاحب صرف اسی ایسوسی ایشن کے جلسوں میں شریک ہوں جو ان کی تسلیم کردہ ایسوسی ایشن کی طرف سے منظم کیے گئے ہوں اور اس معاملہ میں ہارنے والوں کی تنقید کا جواب دیں کہ تم ہارنے کے بعد کس منہہ سے ہماری Recognition کا مطالبہ کررہے ہو؟ اس طرح کی مردوں والے طریقے ہی سے کمیونٹی میں اتحاد پیدا ہوگا اور اس معاملہ میں سفارت خانہ کو انصاف اور حق و صداقت پر مبنی کوئی نہ کوئی Stand لینا ہوگا۔ گو مگو کی پالیسی اور جو کچھ ہزاروں پاکستانیوں نے اپنے اوقات اور کاروبار کی قربانی دے کر الیکشن میں حصہ لیا ہے اس سے غیر جانبداری برتنا سراسر نا انصافی ہوگی اور ہر کس و ناکس کو پاکستان ایسو سی ایشن کے مقدس نام کو اپنے ذاتی مفادات اور ذاتی شہرت کے لیے استعمال کرنے کا موقع دینے کے مترادف ہوگا